Job Ke Liye Aurat Se Ghair Sharai Taluq Zahir Karna

جاب وغیرہ حاصل کرنے کے لیے غیرشرعی تعلقات کااظہارکرنا

مجیب:مفتی محمد حسان عطاری

فتوی نمبر:WAT-3149

تاریخ اجراء:01ربیع الثانی1446ھ/05اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں     کہ      ایک شخص بیرون ملک مثلا ساؤتھ افریقہ میں کام کاج کے سلسلہ میں گیا ہوا ہے اور وہاں کام کرنے کی اجازت اس بات پر مشروط ہے یا کام کرنے کے کاغذات اس بات پر ملیں گے کہ وہاں کسی رہائشی عورت کے ساتھ اپنا تعلق ظاہر کرے (تعلق سے مراد شادی والا تعلق نہیں بلکہ غیر شرعی مثلا گرل فرینڈ وغیرہ) تو پھر اس کو کام کرنے کی اجازت یا کام کرنے کی اجازت والے کاغذات ملیں گے۔ واضح رہے کہ جس عورت کے ساتھ اپنا (گرل فرینڈ والا) تعلق ظاہر کرنا ہے اس کے ساتھ نہ کبھی ہماری ملاقات ہوگی نہ ہی اس کے ساتھ دیگر بات چیت ہوگی بس ہمارے کاغذات کے ساتھ اس کے شناختی کارڈ کی کاپی لگے گی اور ہمارے کاغذات میں وہ ہماری گرل فرینڈ کے طور پر شامل ہوگی، اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ ایسا کرنا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   کسی اجنبی عورت کوگرل فرینڈبنانابھی جائزنہیں اوراس کااظہارکرنابھی جائزنہیں ،خواہ  وہ حقیقت میں بھی گرل فرینڈہویاحقیقت میں نہ ہوفقط جھوٹ موٹ اس کے ساتھ اپنی دوستی کااظہارکیاجارہاہو،بہرصورت ناجائزہےکہ گناہ کااظہاربھی گناہ ہے اورجھوٹ بولنابھی گناہ ہے۔ اورجھوٹ کی صورت میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ اس میں دھوکہ دینابھی پایاجارہاہے اوردھوکہ کسی غیرمسلم کودینابھی جائزنہیں۔اورغیر  شرعی امور  کا ارتکاب  کرکے   کسی  جگہ جاب حاصل   کرنایاوہاں کے کاغذات حاصل کرنابھی جائزنہیں۔

   جھوٹ کے متعلق حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا:”اياكم والكذب ، فان الكذب يهدي الى الفجور ، وان الفجور يهدي اِلى النار“ ترجمہ:جھوٹ سے بچو ، کیونکہ جھوٹ فجور ( یعنی حق بات سے انحراف ) کی طرف لے جاتا ہے اور فجورجہنم کا راستہ دکھاتا ہے۔(سنن ابی داؤد ، باب في التشديد في الكذب ، ج4 ، ص297 ، حديث 4989 ،المكتبة العصرية، بيروت)

   دھوکہ کے متعلق صحیح مسلم میں حدیثِ پاک مروی ہے کہ”عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام فأدخل يده فيها، فنالت أصابعه بللا فقال:ما هذا يا صاحب الطعام؟ قال أصابته السماء يا رسول الله، قال:أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس، من غش فليس مني‘‘ ترجمہ :ر وایت ہے  ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ  صلی اللّٰہ علیہ و سلم غلہ کے ایک ڈھیر پر گزرے تو اپنا ہاتھ شریف اس میں ڈال دیا، آپ کی انگلیوں نے اس میں تری پائی تو فرمایا اے غلہ والے یہ کیا ، عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اسے بارش پڑ گئی  ،فرمایا تو گیلے غلہ کوتو نے ڈھیر کے اوپر کیوں نہ ڈالا تاکہ اسے لوگ دیکھ لیتے جو دھوکہ  دے  وہ ہم میں سے نہیں۔(صحیح مسلم،ج 1،ص 99،حدیث 102،دار إحياء التراث العربي ، بيروت)

   علامہ  عبد الرؤوف مناوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ( متوفی 1031 ھ) فیض القدیر میں  فرماتے ہیں  :’’  الغش ستر  حال الشیء ‘‘  یعنی دھوکہ  کا مطلب ہے    کسی چیز  کی  اصلی حالت چھپانا ۔(فیض القدیر،ج 6،ص 185،مطبوعہ مصر)

   مذکورہ حدیث پاک کے تحت علامہ حسين بن محمود بن حسن شیرازي حنفی  علیہ الرحمہ(متوفى 727 ھ)المفاتیح فی شرح المصابیح میں   فرماتے ہیں: ’’(الغش):ستر حال شيء على أحد؛ يعني:  إظهار شيء على خلاف ما يكون ذلك الشيء في الباطن، كهذا الرجل؛ فإنه جعل الحنطة المبلولة في الباطن واليابسة  على وجه الصبرة، ليرى المشتري ظاهر الصبرة ويظن أن جميع الصبرة يابس، فهذا الفعل هو الغش والخيانة، وهو محرم؛ لأنه إضرار بالناس‘‘ترجمہ:(الغش)کا معنی ہے شی کی حالت کسی پر چھپانا،یعنی   کسی شی کو اس کے خلاف ظاہر کرنا  جو  اس شی کی حقیقت ہے  جیسا کہ یہ شخص  کہ اس نے  تر  گندم کو   نیچے اور   سوکھی  گندم   کو  اوپر رکھا  تاکہ  خریدنے والا   ڈھیر کا  اوپر والا حصہ دیکھے  اور  یہ  گمان کرے کہ پوری گندم   سوکھی  ہوئی  ہے،   لہذا یہ فعل دھوکہ ا ور  خیانت ہے  اور  یہ حرام ہے  کیونکہ  اس میں لوگوں کو   نقصان  پہچانا ہے۔(المفاتیح فی شرح المصابیح،ج 3،ص 438،دار النوادر)

   دھوکہ کے متعلق المحیط البرھانی میں ہے”الغدر حرام ‘‘  یعنی دھوکہ دینا حرام ہے۔(المحیط البرھانی،ج 2،ص 363،دار الكتب العلمية، بيروت)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:’’غَدَر و بد عہدی مطلقاً سب سے حرام ہے، مسلم ہو یا کافر، ذمی ہو یا حربی، مستامن ہو یا غیر مستامن، اصلی ہو یا مرتد۔‘‘(فتاوی رضویہ، ج 14، ص 139، رضا فاؤنڈیشن، لاهور)

   ردالمحتارمیں ہے "إظهار المعصية معصية لحديث الصحيحين «كل أمتي معافى إلا المجاهرين، وإن من الجهار أن يعمل الرجل بالليل عملا ثم يصبح وقد ستره الله فيقول عملت البارحة كذا وكذا وقد بات يستره ربه ويصبح يكشف ستر الله عنه»"ترجمہ:گناہ کااظہارگناہ ہے ،بخاری ومسلم کی اس حدیث پاک کی وجہ سے کہ :میری ساری امت  عافیت میں ہے سوائے ان کے جواعلانیہ گناہ کرتے ہیں،گناہ کے اعلان میں سے یہ بھی ہے کہ کوئی شخص رات میں کوئی کام کرے پھراس حال میں صبح کرے کہ اللہ  تعالی نے اس پرپردہ ڈال رکھاہواوروہ کہے:میں نے گزشتہ رات ایساایساکیا،اس نے رات تواس حال میں گزاری کہ اللہ تعالی نے اس پرپردہ ڈال رکھاتھالیکن صبح کووہ اللہ تعالی کے پردے کواپنے اوپرسے دورکرنے لگ گیا۔(ردالمحتارمع الدرالمختار،کتاب الصلاۃ، باب سجودالسہو،ج02، ص77، دارالفکر، بیروت)

   فتاوی رضویہ میں ہے "گناہ علانیہ دوہرا گناہ ہے کہ اعلان گناہ دوہرا گناہ بلکہ اس گناہ سے بھی بدتر گناہ ہے۔"(فتاوی رضویہ،ج21،ص144،رضافاونڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم