Jashn e Wiladat Mein Dhol Baje Ka Hukum?‎

جشن ولادت میں ڈھول باجے کا حکم

مجیب:مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:lar:4831

تاریخ اجراء:19ربیع الثانی1436ھ/09فروری2015ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ

     (1)میلاد شریف کے جلوس میں بینڈ باجا ، ڈھول وغیرہ بجانا شرعاً کیسا ہے ؟ اگر کسی جگہ پر میلاد شریف کے جلوس میں ڈھول بجایا جاتا ہو اور ان کو منع کرنے پر وہ لوگ کہیں کہ میلاد شریف کی خوشی میں ڈھول بجانا ، جائز ہے ، ان کا یہ قول کس حد تک درست ہے ؟

     (2)میلادشریف کی محافل میں آتشبازی کااستعمال شرعاًجائزہے یاناجائزہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     (1)مروجہ اندازمیں بجائے جانے والے بینڈباجے اورڈھول وغیرہ جلوس وغیرِجلوس ہرجگہ بجانا ، ناجائزوگناہ ہے ۔

     بخاری شریف میں ہے :’’سمع النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول:لیکونن من أمتی أقوام یستحلون الحر والحریر والخمروالمعازف‘‘ترجمہ:رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:ضرورمیری امت میں ایسے لوگ ہوں گے ، جوآزادشخص(کی خرید و فروخت)کو،ریشم کو،شراب کواورگانے بجانے کے آلات کوحلال سمجھیں گے۔(صحیح البخاری،ج7،ص106،دارطوق النجاۃ)

     سبل الھدی والرشادمیں ہے :الصواب أنہ من البدع الحسنۃ المندوبۃ اذا خلا عن المنکرات شرعاً‘‘ترجمہ:درست بات یہ ہے کہ محفلِ میلادبدعت حسنہ،مستحبہ ہے جبکہ منکرات شرعیہ سے پاک ہو۔(سبل الھدی،ج1،ص367،دارالکتب العلمیۃ،بیروت)

     فتاوی رضویہ میں سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا : ’’ زیدکہتا ہے کہ قوالی مع آلات مزامیر کے جائزہے۔۔۔ اور کہتاہے کہ مزامیر اُن باجوں کو کہتے ہیں ، جو منہ سے بجائے جاتے ہیں ۔  ڈھلک، ستار، طبلہ، مجیرے، ہارمونیم، سارنگی مزامیر میں داخل نہیں بلکہ ان کا اوردف کاایک حکم ہے۔‘‘(اس کے جواب میں آپ علیہ الرحمۃ نے فرمایا:)’’زیدکاقول باطل ومردودہے، حدیث صحیح بخاری شریف میں مزامیر کالفظ نہیں بلکہ معازف کہ سب باجوں کوشامل ہے ۔ ‘‘(فتاوی رضویہ،ج24،ص140،رضافاؤنڈیشن،لاهور)

     فتاوی رضویہ میں سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا : ’’میلاد شریف میں قوالی کی طرح پڑھنا کیساہے؟‘‘

     اس کے جواب میں فرمایا:”قوالی کی طرح پڑھنے سے اگر یہ مرا د کہ ڈھول ستار کے ساتھ ، جب تو حرام اور سخت حرام ہے اوراگر صرف خوش الحانی مراد ہے ، تو کوئی امر مورث فتنہ نہ ہو ، تو جائز بلکہ محمود ہے اوراگر بے مزامیر گانے کے طور پر راگنی کی رعایت سے ہو ، تو ناپسند ہے کہ یہ امر ذکر شریف کے مناسب نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم‘‘(فتاوی رضویہ،ج21،ص664،رضافاؤنڈیشن،لاهور)

     فتاوی رضویہ میں ہے :’’اپنی تقریبوں میں ڈھول جس طرح فساق میں رائج ہے بجوانا، ناچ کرانا حرام ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج23،ص98،رضافاؤنڈیشن،لاهور)

     مروجہ ڈھول کوجائزکہنے والے شریعت پرجھوٹ باندھنے والے ہیں ،ان سے کہاجائے کہ اگرتم سچے ہو، تودکھاؤشریعت میں اسے کہاں جائز بتایا گیاہے؟ان سب پراس افتراء سے توبہ کرنافرض ہے ۔

     (2)مروجہ آتشبازی بھی ناجائزوحرام ہے کہ اس میں تضییعِ مال واسراف ہے ۔فتاوی رضویہ میں ہے : ’’آتشبازی جس طرح شادیوں اور شب برأت میں رائج ہے ، بیشک حرام اور پوراجرم ہے کہ اس میں تضییعِ مال ہے ۔ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی فرمایا۔قال ﷲتعالیٰ:﴿لا تبذر تبذیرا،ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین ، وکان الشیطان لربہ کفورااللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:کسی طرح بے جا نہ خرچ کیا کرو ، کیونکہ بے جا خرچ کرنے والے شیاطین کے بھائی ہوتے ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بہت بڑا نا شکر گزار ہے۔

     رسول اﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’ان ﷲ تعالیٰ کرہ لکم ثلثا قیل وقال واضاعۃ المال وکثرۃ السوال، رواہ البخاری عن المغیرۃ بن شعبۃ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ‘‘بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تین کاموں کو ناپسند فرمایا:(۱)فضول باتیں کرنا (۲)مال کو ضائع کرنا (۳)بہت زیادہ سوال کرنا اور مانگنا۔ امام بخاری نے اس کو حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے ۔

     شیخ محقق مولنا عبدالحق محدث دہلوی ماثبت بالسنۃ میں فرماتے ہیں:’’من البدع الشنیعۃ ماتعارف الناس فی اکثر بلاد الهند من اجتماعھم للھو واللعب بالنار واحراق الکبریت اھ مختصرا‘‘ترجمہ:بری بدعات میں سے یہ اعمال بھی ہیں ، جو ہندوستان کے زیادہ تر شہروں میں متعارف اور رائج ہیں ۔ جیسے لہوکے لیے اور آگ کے ساتھ کھیلنے کے لیے ان کا جمع ہونااور گندھک جلانا ۔ اھ مختصراً‘‘(فتاوی رضویہ،ج23،ص279-80،رضافاؤنڈیشن،لاهور)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم