جشنِ آزادی کے موقع پر بچوں کے لیے بنایا گیا چھوٹا گٹار بیچنے کا حکم؟

مجیب:مفتی ابوالحسن محمد  ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: GRW-1354

تاریخ اجراء: 26محرم الحرام1446 ھ/02اگست2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلےکے بارے میں کہ چودہ اگست کو جشنِ آزادی کے موقع پر بچوں کے لیے ایک گٹار مارکیٹ میں آیا ہے،جو بڑے گٹار سے چھوٹا اور کوالٹی میں ناقص ہوتا ہے،لیکن اس گٹار میں بھی بڑے گٹار کی طرح چھ تاریں ہوتی ہیں،اور ان تاروں کو ہلانے سے ساز بجتے ہیں،جس طرح بڑے گٹار کا معاملہ ہے،تو شرعی رہنمائی فرمائیں کہ اس گٹار کو بیچنے  کا کیا حکم ہے؟

   ذیل میں اس گٹار کی تصاویر  موجود ہیں:

 

       
   
 

 

 

 

 


بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جشنِ آزادی کے موقع پر بچوں کے لیے بنایا گیا چھوٹا گٹار بیچنے کا حکم؟

   دریافت کی گئی صورت میں یہ گٹار بیچنا ناجائز و گناہ ہے کہ  یہ گٹار گناہ(یعنی موسیقی) کے لیے متعین ہیں،کیونکہ یہ موسیقی کی آواز نکالنے کے لیے ہی بنائے  اور فروخت کیے جاتے ہیں،اس کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں ہوتے،تو ان کا بیچنا گناہ پر تعاون کرنا ہے اور گناہ پر تعاون بھی گناہ ہے۔

   اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشْتَرِیۡ لَہۡوَ الْحَدِیۡثِ لِیُضِلَّ عَنۡ سَبِیۡلِ اللہِ بِغَیۡرِ عِلْمٍ ٭ۖ وَّ یَتَّخِذَہَا ہُزُوًا ؕ اُولٰٓئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ﴾ترجمہ کنز الایمان:’’اور کچھ لوگ کھیل کی بات خریدتے ہیں  کہ اللہ کی راہ سے بہکادیں بے سمجھے  اور اُسے ہنسی بنالیں اُن کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔“(پارہ 21،سورۃ لقمٰن،آیت 6)

   مذکورہ آیت کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:”معلوم ہوا کہ باجے ، تاش،شراب بلکہ تمام کھیل کُود کے آلات بیچنا بھی منع ہیں اور خریدنا بھی ناجائز کیونکہ یہ آیت ان خریداروں کی برائی میں اُتری۔‘‘(تفسیر نور العرفان،ص 655،پیر بھائی کمپنی،لاھور)

   در مختار میں ہے:”(ويكره) تحريما (بيع السلاح من أهل الفتنة إن علم) لأنه إعانة على المعصية ترجمہ:اہلِ فتنہ کے ہاتھ اسلحہ بیچنا مکروہِ تحریمی ہے، جبکہ بیچنے والے کو معلوم ہو کہ خریدار اہلِ فتنہ میں سے ہے، کیونکہ انہیں اسلحہ بیچنے میں معصیت (گناہ)پر تعاون  ہے۔

   اس کے تحت رد المحتار میں ہے:” (قوله: لأنه إعانة على المعصية) ؛ لأنه يقاتل بعينه۔۔۔ونظيره كراهة بيع المعازف؛ لأن المعصية تقام بها عينها“ترجمہ:(مصنف کا قول:کیونکہ اہلِ فتنہ کو اسلحہ بیچنے میں معصیت پر تعاون ہے)کیونکہ بعینہٖ اسلحہ کے ساتھ قتال کیا جاتا ہے،اس کی نظیر یہ ہے کہ معازف(آلات لہو)کی بیع مکروہ ہے، کیونکہ یہاں بھی عین کے ساتھ معصیت قائم ہوتی ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الجھاد،ج 4،ص 268،دار الفکر، بیروت)

   بدائع الصنائع میں ہے:”ويكره بيع السلاح من أهل البغي وفي عساكرهم؛ لأنه إعانة لهم على المعصية۔۔۔ونظيره أنه يكره بيع المزامير“ترجمہ:باغیوں کے ہاتھ اسلحہ بیچنا مکروہ ہے،یونہی ان کے لشکر میں اسلحے کی بیع مکروہ ہے، کیونکہ یہ انہیں گناہ پر مدد دینا ہے،اس کی نظیر یہ ہے کہ مزامیر (گانے باجے کے آلات)بیچنا مکروہ ہے( کیونکہ ان کے بیچنے میں بھی گناہ پر تعاون کی صورت پائی جاتی ہے۔)(بدائع الصنائع،کتاب السیر،ج 7،ص 142،دار الکتب العلمیہ،بیروت)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:” گناہ کے آلات کنکیّا، ڈوربیچنابھی منع ہے ۔‘‘ (فتاوی رضویہ،ج 24،ص 659،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   جس چیز کی ذات کے ساتھ معصیت قائم ہو،اس چیز کی بیع کے مکروہ تحریمی ہونے کے بارے  میں درمختار وردالمحتار میں ہے:” ان  ماقامت   المعصیۃ  بعینہ    یکرہ      بیعہ    تحریما   (   لتعلیلھم     بالاعانۃ     علی المعصیۃ)عبارۃ القوسین لردالمحتار“ترجمہ:جس کے عین یعنی ذات کےساتھ معصیت قائم ہو، اس کی بیع مکروہ تحریمی ہے، کیونکہ فقہائے کرام نے اس کی علت یہ بیان فرمائی کہ یہ گناہ پر مدد کرنا ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الجھاد،ج 4،ص 268،دار الفکر،بیروت)

   عین کے ساتھ معصیت قائم ہونے کا معنی بیان کرتے ہوئے امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:” فاعلم أن معنى ما تقوم المعصية بعينه أن يكون في أصل وضعه موضوعا للمعصية أو تكون هي المقصودة العظمى منه ۔۔۔فما كان مقصوده الأعظم تحصيل معصية معاذاللہ تعالى كان شراؤه دليلا واضحا على ذلك القصد فيكون بيعه إعانة على المعصية“ترجمہ:جان لو کہ عین کے ساتھ معصیت قائم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز اپنی اصل وضع ہی میں معصیت کے لیے بنائی گئی ہو یا اس سے مقصودِ اعظم ہی معصیت ہو،پس جس چیز کا مقصودِ اعظم ہی معصیت  کا حصول ہو،معاذ اللہ تعالی،تو اس کا خریدنا گناہ کے ارادے پر واضح دلیل ہے ،پس اس چیز کا بیچنا معصیت پر تعاون ہے۔(جدالممتار علی رد المحتار،کتاب الحظروالاباحۃ، ج7،ص76، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم