جانوروں کو آپس میں لڑوانے کا حکم |
مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری |
فتوی نمبر: Sar-7441 |
تاریخ اجراء:29 محرم الحرام1443ھ/07 ستمبر2021ء |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بہت سی جگہوں پر جانوروں مثلاً: کتوں، مرغوں اور ریچھوں وغیرہا کی لڑائی کروائی جاتی ہے، اِس لڑائی کے لیے جانوروں کے مالِکان اُنہیں اِسی مقصد کے لیے پالتے اور لڑائی کی تیاری کرواتے ہیں، تیاری کے دوران مرغوں کے ناخنوں کو تراش کر تیز کیا جاتا ہے، یونہی کتوں وغیرہ کے دانتوں کو نوکیلا بنایا جاتاہے، تا کہ دوسرے جانور کو جلد پچھاڑ سکیں، اِس لڑائی میں جانور بالیقین زخمی بھی ہوتے ہیں اور بعض اوقات مربھی جاتے ہیں، اِس پر انعامات بھی دئیے جاتے ہیں اور جوا بھی کھیلا جاتا ہے ۔ ایسے کھیل کا کیا حکم ہے؟ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
کتے،مرغ،بیل ،بٹیر، ریچھ، تیتراوردیگرجانوروں کو آپس میں لڑانا،ناجائز،گناہ اورحرام ہے،یونہی اِن کی لڑائی اور تماشہ دیکھنا یا کسی شخص کا بالخصوص لڑائی کے لیے مرغ، کتے یا کسی جانور کو پالنا بھی ناجائز اور گناہ ہے، کیونکہ اِنہیں لڑانے میں جانور یقیناً زخمی ہوتے اور بعض صورتوں میں مر بھی جاتے ہیں، جو جانوروں پر سَراسَر ظلم اور اُنہیں بلاوجہ ایذاپہنچانا ہے،جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جانوروں کو تکلیف دینے سے سختی سے منع فرمایا اور اِس کی شدید مذمت بیان کی ہے۔ہمارے معاشرے بالخصوص دیہاتوں میں جانوروں کی لڑائی پر دو طَرْفہ شرطیں لگائی جاتی ہیں کہ ہارنے والا، جیتے ہوئے شخص کو مخصوص رقم یا اپنا مخصوص جانور دے گا، یہ جوا ہے، جو ناجائز، گناہ اور سخت حرام ہے، اِسی طرح تماشائیوں میں سے بعض لوگ آپس میں جیت ہار کی بنیاد پر رقم متعین کرتے ہیں، یہ بھی جُوا ہے۔ اِس انداز میں جو رقم حاصِل کی گئی وہ مالِ خبیث ہے اور لینے والے کی ملکیت میں داخل ہی نہیں ہوتی، لہٰذا جس کے پاس ایسی رقم یا مال ہو ،اُس پرفرض ہے کہ جس سے وہ مال لیا اُسے واپس کرے اوراگر وہ زندہ نہ رہا ہو تو اُس کے وارِثین یعنی اولاد وغیرہا کو واپس کرےاوراگر وہ مالِک یا اُس کی اولاد میں سے کوئی نہیں ملتا، تو اِس پر ضروری ہے کہ اُن مالکان کی طرف سے بغیر ثواب کی نیت کیے، کسی فقیرِ شرعی کو دیدے۔ حیوانات کے متعلق اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : ﴿وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا طٰٓىٕرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْهِ اِلَّاۤ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’اور زمین میں چلنے والا کوئی جاندار نہیں ہے اور نہ ہی اپنے پروں کے ساتھ اڑنے والا کوئی پرندہ ہے، مگر وہ تمہاری جیسی امتیں ہیں۔‘‘ (پارہ7، سورۃ الانعام،آیت38) اوپر ذکر کی گئی آیت کے تحت مشہور مفسِّر علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ (سالِ وفات:671ھ/1272ء) لکھتےہیں:’’أي هم جماعات مثلكم في أن اللہ عز وجل خلقهم، وتكفل بأرزاقهم، وعدل عليهم، فلا ينبغي أن تظلموهم، ولا تجاوزوا فيهم ما أمرتم به‘‘ترجمہ:یعنی اُن کی تمہاری طرح ہی جماعتیں اور گروہ ہیں، وہ یوں کہ انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا، اُن کے رزق کو اپنے ذمہ کرم پر لیا اور اُن میں عدل قائم کیا، پس یہ ہرگز مناسب نہیں کہ تم اُن جانوروں پر ظلم کرو ، نیز اُن کے بارے میں جو تمہیں حکم دیا گیا ہے، اُس سے تجاوُز نہ کرو۔ (الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، جلد6، صفحہ 419، مطبوعہ دارالکتب المصریۃ، قاهرہ) جانوروں کو آپس میں لڑانے سے ممانعت کے متعلق سنن ترمذی، سنن ابو داؤد، معجمِ کبیر اور سننِ بیہقی میں ہے: والنظم للاوَّل:’’عن ابن عباس قال: نهى رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم عن التحريش بين البهائم۔‘‘ترجمہ:حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، آپ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو آپس میں لڑوانے سے منع فرمایا ہے۔ (سنن الترمذی ، جلد1،ابواب الجھاد،باب ما جاء في كراهية التحريش بين البهائم ، صفحہ433، مطبوعہ لاھور) اِس حدیث مبارک کی شرح میں علامہ علی قاری حنفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ(سالِ وفات:1014ھ/1605ء) لکھتے ہیں:أي: عن الإغراء بينها بأن ينطح بعضها بعضا أو يدوس أو يقتل في النهاية: هو الإغراء وتمييج بعضها على بعض كما يفعل بين الجمال والكباش والديوك وغيرها، يعني كالفيل والبقر وكما بين البقر والأسد، وإذا كان الإغراء بين البهائم منهيا، فبالأولى أن يكون الإنسان منهيا وهو كثير في بعض البلدان۔‘‘ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو ایسے انداز میں ابھارنے سے منع فرمایا کہ وہ ایک دوسرے کو سینگ ماریں، روندیں یا مار ڈالیں۔ نہایہ میں ہے کہ ”تحریش“ سے مراد جانور کو لڑائی پر ابھارنا اور اُن کا ایک دوسرے کو مارنا ہے، جیسا کہ اونٹوں، مینڈھوں اور مرغوں وغیرہا میں یوں لڑائی کروائی جاتی ہے، یونہی ہاتھی اور گائے اور شیر اور گائے کی لڑائی کروائی جاتی ہے۔ جب جانوروں میں لڑائی کروانا اور انہیں ابھارنا ممنوع ہے،تو انسانوں میں تو بدرجہ اولیٰ ممنوع ہے۔بعض شہروں میں انسانوں کولڑوانے کی کثرت ہے۔(جیسے باکسنگ(Boxing) وغیرہ میں ایک دوسرے کو زخمی کردیتے ہیں۔) (مرقاۃ المفاتیح، جلد7،کتاب الصید والذبائح، صفحہ701، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، لبنان) اِسی حدیث کی شرح میں مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سالِ وفات:1391ھ/1971ء)نے لکھا:’’ اللہ تعالی رحم فرمائے!آج مسلمانوں میں مرغ لڑانا،کتے لڑانا،اونٹ،بیل لڑانے کا بہت شوق ہے،یہ حرام،سخت حرام ہےکہ اس میں بلا وجہ جانوروں کو ایذا رسانی ہے،اپنا وقت ضائع کرنا۔بعض جگہ مال کی شرط پر جانور لڑائے جاتے ہیں،یہ جوا بھی ہے،حرام درحرام ہے ۔‘‘ (مراٰة المناجیح شرح مشکوة المصابیح، جلد5،صفحہ659،مطبوعہ نعیمی کتب خانہ، گجرات) مذکورہ حدیث میں ممانعت، درجہِ حرام کی ہے، چنانچہ علامہ طاہر حنفی گجراتی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سالِ وفات:986ھ/1578ء) لکھتے ہیں:’’نهى عن التحريش بين البهائم، ظاهره أنه للتحريم۔‘‘ترجمہ:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو آپس میں لڑوانے سے منع کیا، اِس حدیث میں ”نھی“اِس فعل کو حرام ثابت کرنے کے لیے ہے۔ (مجمع بحار الانوار، جلد5، صفحہ 375، مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارِف العثمانیۃ) جانوروں کو لڑانے سے ممانعت کے متعلق ایک دوسری حدیث مبارک مسندِ فردوس میں ہے:’’انہ قال لا تحرشوا بين البهائم فإنها أمة من الأمم هلكت في ذلك‘‘ترجمہ:بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جانوروں کو آپس میں مت لڑاؤ، کیونکہ پچھلی امتوں میں سے ایک امت اِسی وجہ سے ہلاک ہوئی تھی۔ (مسند الفردوس، جلد5، صفحہ54، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت) ابو احمد علامہ جُرْجانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سالِ وفات:365ھ/975ء) نے اپنی تصنیف”الکامل فی ضعفاء الرجال“ میں غالب بن عبیداللہ کے تعارف میں اُن ہی سے مروی یہ حدیث نقل کی:’’عن عبد اللہ بن عمر أنه مر بقوم فد نصبوا عصفورا يرمونه فقال سمعت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم يقول إن اللہ تعالى لعن من يحرش بين البهائم‘‘ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ لوگوں کی ایک جماعت کے قریب سے گزرے، جنہوں نے ایک چڑیا کو ہدف بنا رکھا تھا اور اُس پر تیر اندازی کر رہے تھے، (یہ دیکھ کر) آپ نے فرمایا: میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بے شک اللہ پاک اُس شخص پر لعنت بھیجتا ہے جو جانوروں کو آپس میں لڑائے۔ (الکامل فی ضعفاء الرجال، جلد7، صفحہ 110، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت ) امام بخاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سالِ وفات:256ھ/869ء) نے ”الادب المفرد“ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق بیان کیا:’’أنه كره أن يحرش بين البهائم‘‘ترجمہ:آپ رضی اللہ عنہ جانوروں کے مابین لڑائی کروانے کو ناپسند جانتے تھے۔ (الادب المفرد،باب التحريش بین البھائم، صفحہ 700، مطبوعہ مکتبۃ المعارِف، ریاض) تحریش یعنی جانوروں کو لڑانے کی حرمت اور اُس کی وجہ بیان کرتے ہوئے امام بیہقی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سالِ وفات:458ھ/1065ء) نے لکھا:’’ قال الحليمي:ومن وجوه اللعب التحريش بين الكلاب والديوك، وقد جاء عن النبي صلى اللہ عليه وسلم أنه نهى عنه التحريش بين البهائم هو حرام ممنوع لا يؤذن لأحد فيه لأن كل واحد من المتحارشين يؤلم الآخر، ويجرحه ولو أراد المحرش أن يفعل ذلك بيده ما حل له‘‘ترجمہ:امام حلیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ لَہْو ولَعِب کی اَقسام میں سے کتوں اور مرغوں کو لڑانا بھی ہے، حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نے جانوروں کو آپس میں لڑوانے سے منع فرمایا ہے۔ یہ حرام اور ممنوع ہے، ایسا کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں ہے، کیونکہ لڑنے والے دونوں جانوروں میں سے ہر ایک دوسرے کو تکلیف پہنچاتا اور زخمی کرتا ہے اور اگر لڑانے والا شخص بذاتِ خود کسی جانور سے لڑے تو یہ بھی اُس کےلیے حلال نہیں۔ (شعب الايمان، جلد8، صفحہ 483، مطبوعہ مکتبۃ الرشد، ریاض) شارِح بخاری علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سالِ وفات:855ھ/1451ء) لکھتےہیں:’’والمناطحة في الكبش، والطيران السريع في الحمامة، والمقاتلة في الديك، والخصي في العبد، فإن هذه الأشياء كلهامعصية‘‘ترجمہ:مینڈھوں کو سینگوں سے باہم لڑوانا، کبوتر کو تیز اڑانا، مرغوں کو آپس میں لڑوا کر مروانا، غلام کا خصی ہونا، یہ تمام چیزیں مَعْصِیَّت یعنی گناہ ہیں۔ (البنایۃ شرح الھدایۃ، جلد11، صفحہ272، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت) موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں ہے:’’ ولا خلاف بين الفقهاء في حرمة التحريش بين البهائم بتحريض بعضها على بعض وتهييجه عليه لأنه سفه ويؤدي إلى حصول الأذى للحيوان وربما أدى إلى إتلافه بدون غرض مشروع ‘‘ ترجمہ:جانوروں کو لڑانے کے حرام ہونے سے متعلق فقہائے کرام کے مابین کسی طرح کا کوئی اختلاف نہیں ہے،”تحریش“ یعنی جانوروں کو ایک دوسرے سے لڑنے پر ابھارنا وغیرہ، کیونکہ یہ نِری بے وقوفی ہے، نیز بے زبان جانور کو ایذاء رسانی ہے، بلکہ بعض اوقات بغیر وجہِ شرعی جانور کو ہلاک کیا جاتا ہے۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ، جلد10، صفحہ 195، مطبوعہ وزارتِ اوقاف، کویت) امامِ اہلسنّت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’بٹیربازی،مرغ بازی اور اسی طرح ہر جانور کالڑانا، جیسے:مینڈھےلڑاتے ہیں،لعل لڑاتے ہیں،یہاں تک کہ حرام جانوروں ،مثلاً: ہاتھیوں ریچھوں کالڑانا بھی سب مطلقاً حرام ہے، کہ بلاوجہ بے زبانوں کوایذاہے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، جلد24،صفحہ655،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور) صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سالِ وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:’’جانوروں کو لڑانا مثلاً :مرغ، بٹیر، تیتر، مینڈھے،بھینسے وغیرہ کہ ان جانوروں کو بعض لوگ لڑاتے ہیں،یہ حرام ہے اور اس میں شرکت کرنا یا اس کا تماشہ دیکھنا بھی ناجائز ہے۔‘‘ (بھارِ شریعت، جلد3، حصہ16، صفحہ512، مکتبۃ المدینہ،کراچی) لڑوانے کا مقصد رکھ کر مرغ یا کتے کو پالنا بھی ناجائز ہے، چنانچہ فتاویٰ فقیہ ملت میں ہے:’’مرغیاں پالنا اگر نفع حاصل کرنےکے لیے ہے تو جائز ہے، لیکن اگر کوئی مرغ بازی یعنی مرغ، مرغیاں لڑانے کے لیے پالے، تو یہ جائز نہیں، اِس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جانوروں کو لڑانے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ (فتاوی فقیہِ ملت ،جلد2،صفحہ297،مطبوعہ شبیر برادرز ،لاھور) مرغ بازی یا دیگر جانوروں کی لڑائی میں دونوں طرف سے جو رقم یاجانور متعین کیا جاتا ہے، وہ خالِص جوا ہے اور جوئے کی مذمت بیان کرتے ہوئے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور قسمت معلوم کرنے کے تیر ناپاک شیطانی کام ہی ہیں، تو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘ (پارہ 7،سورۃ المائدۃ ، آیت90) مرغ بازی یا دیگر جانوروں کی لڑائی میں دونوں طرف سےرقم یاجانور کا متعین ہونا جوا اور حرام ہے، چنانچہ ابو المَعَالی علامہ بخاری حنفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (سالِ وفات:616ھ/1219ء) لکھتےہیں:’’ فإن شرطوا الجعل من الجانبين فهو حرام. وصورة ذلك: أن يقول الرجل لغيره: تعال حتى نتسابق، فإن سبق فرسك، أو قال: إبلك أو قال: سهمك أعطيك كذا، وإن سبق فرسي، أو قال: إبلي، أو قال: سهمي أعطني كذا، وهذا هو القمار بعينه۔‘‘ترجمہ:اگر جانبین سے ”جَعْل“ یعنی کسی رقم یا انعام کی شرط لگائی جائے ،تو یہ سراسَر حرام ہے۔ اِس کی صورتِ مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے سے کہے: آؤ مقابلہ کریں، اگر تمہارا گھوڑا، اونٹ یا نیزہ آگے بڑھ گیا تو میں تمہیں فلاں چیز دوں گا اور اگر میرا اونٹ یا نیزہ آگے بڑھ گیا تو تم مجھے فلاں چیز دو گے۔ یہ خالِص جوا ہے۔ (المحیط البرھانی، جلد5، الفصل السابع فی المسابقۃ، صفحہ323، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان) جس نے جوئے کے ذریعے مال کمایا اُس پر لازم ہے کہ مالِکان کو واپس کرے، چنانچہ امامِ اہلسنّت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں:’’جس قدر مال جوئے میں کمایا محض حرام ہے اور اس سے بَراء َ ت یعنی نَجات کی یِہی صورت ہے کہ جِس جِس سے جتناجتنا مال جِیتاہے ،اُسے واپَس دے، یا جیسے بنے اُسے راضی کرکے مُعاف کرالے، وہ نہ ہو تو اُس کے وارِثوں کو واپَس دے، یا اُن میں جو عاقِل بالِغ ہوں ان کا حصّہ اُن کی رِضامندی سے مُعاف کرالے۔ باقیوں کا حصّہ ضَرور انہیں دے کہ اِس کی مُعافی ممکن نہیں، اورجن لوگوں کا پتا کسی طرح نہ چلے، نہ اُن کا، نہ اُن کے وَرَثہ کا ، اُن سے جس قَدَر جیتا تھا، اُن کی نیّت سے خیرات کردے، اگرچِہ خود اپنے ہی محتاج بہن بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں کو دے دے۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ، جلد19،صفحہ651، رضا فاؤنڈیشن،لاھور) مذکورہ تمام دلائل سے اِس کی حرمت اپنی جگہ، مگر اِس کی دوسری اور بہت بڑی دینی اور معاشرتی خرابی یہ ہے کہ ایسے کاموں میں ملوث شخص فقط اِن ہی کاموں کی نذر ہو جاتا ہے اور اپنے فرائض منصبی اور مقاصِدِ زندگی سے غافِل ہو جاتا ہے، چنانچہ مشہور محدث حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ(سالِ وفات:1176ھ/1762ء) لکھتےہیں:’’منها الاشتغال بالمسليات وهي ما يسلي النفس عن هم آخرته ودنياه ويضيع الأوقات كالمعازف والشطرنج واللعب بالحمام واللعب بتحريش البهائم ونحوها؛ فان الانسان إذا اشتغل بهذه الأشياءلها عن طعامه وشرابه وحاجته، وربما كان حاقنا لا يقوم للبول فان جرى الرسم بالاشتغال بها صار الناس كلا على المدينة، ولم يتوجهوا إلى إصلاح نفوسهم۔‘‘ترجمہ:لغو کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ مستیوں میں مشغول ہو جانا، جو اُسے دنیا اور آخرت سے بے فکر بنا دیتی اور وقت کو ضائع کرتی ہیں، مثلاً باجے، شطرنج، کبوتر بازی، جانوروں کو آپس میں لڑوانا وغیرہا۔ جب اِنسان اِن چیزوں میں مشغول ہو جاتا ہے، تو کھانے پینے اور ضروری کاموں سے بھی غافل ہو جاتا ہے اور بسا اوقات اسے پیشاب کی حاجت ہوتی ہے، مگر نہیں اٹھتا، اگر ان کاموں کی رسم چل پڑے ،تو یہ لوگ شہر پر بوجھ بن جائیں گے اور اصلاحِ نفس کی طرف توجہ بھی نہیں کریں گے۔ (حجۃ اللہ البالغۃ، جلد2،من ابواب المعیشۃ، صفحہ 297، مطبوعہ دارالجیل، بیروت) |
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
غیر مسلم سے زنا کاحکم؟
زانیہ بیوی سے متعلق حکم
کیا آئندہ گناہ کرنے کی نیت سے بھی بندہ گنہگار ہوجاتاہے؟
سجدۂ تحیت کے متعلق حکم
پلاٹ کی رجسٹری کے نام پر مٹھائی لینا کیسا؟
رشوت کے تحفے کا حکم
شراب پینے سے کب وضو ٹوٹے گا؟
امتحانات میں رشوت لے کر نقل کروانا کیسا ؟