Imtihanat Mein Rishwat Le Kar Naqal Karwana Kaisa?

امتحانات میں رشوت لے کر نقل کروانا کیسا ؟

مجیب:مولانا سرفراز اخترصاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:har:5183

تاریخ اجراء:14جمادی الثانی1440ھ/20فروری2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ Examination staffکو اس لئے کھانا کھلانا اور تحفہ دینا تاکہ وہ ہمارے طلبہ کو چیٹنگ(نقل) کرنے دیں ۔یہ کیسا ہے؟

سائلہ :بنت نواز(خوشاب)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     قوانین شرعیہ کے مطابق اپنا کام نکلوانے یا دوسروں کی حق تلفی کے لئے کسی کو کچھ دینا رشوت کہلاتاہے ،اس کے مطابق Examination staffکو اس مذموم غرض سےکھانا کھلانا یا تحفہ دینا ،اپنا کام نکلوانے اور نقل نہ کرنے والے طلبہ کی حق تلفی کے لئے ہے،لہٰذا رشوت و ناجائز ہے۔پھر یہ کہ امتحانات میں نقل کرنا یا کروانا خود مستقل طور پر ناجائز و حرام کام ہے۔اولاً اس لئے کہ قانوناً جرم ہے اور پکڑے جانے کی صورت میں ذلت و رسوائی کا سبب ہے اور ایسا ملکی قانون ، جو خلاف شریعت نہ ہو اور اس کی خلاف ورزی میں ذلت کا اندیشہ ہو،ایسے قانون پرشرعاً بھی عمل واجب ہے۔ثانیاً اس لئے کہ نقل کرنے میں نگرانی کرنے والوں،پیپر چیک کرنے والوں اور اس ڈگری کے ذریعے نوکری دینے والوں کے ساتھ دھوکہ ہے حالانکہ احادیث کریمہ میں دھوکہ دینے سے منع فرمایا گیا ہے۔ثالثاً اس لئے کہ نقل کرنے میں بغیر نقل پیپر دینے والے طلبہ کی حق تلفی ہے اور یہ بھی ناجائز ہے۔الغرض نقل کرنا یا کروانا کئی وجوہ سے ناجائز ہے اور ایسا ناجائز کام بغیر رشوت بھی ناجائز و حرام ہے ، تورشوت دے کر کرنے یا کرانے میں اس کی شناعت و برائی میں اضافہ ہو جائے گا،لہٰذا اس مذموم غرض سے کھانا کھلانا یا تحفہ دینا سخت ناجائز و حرام ہے،کھانے والے ،کھلانے والے ، یونہی تحفہ کا لین دین کرنے والےرشوت کے گناہ کے ساتھ ساتھ ،نقل کے گناہ میں معاون و مددگار بننے کی وجہ سے سخت گناہ گار و عذاب نار کے حقدار ہوں گے،لہٰذا اس سے بچنا فرض ہے۔

     اللہ تبارک و تعالیکا ارشاد ہے:﴿ سَمّٰعُوۡنَ لِلْکَذِبِ اَکّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ ترجمہ کنز الایمان:بڑے جھوٹ سننے والے ، بڑے حرام خور۔ (القرآن،پارہ6،سورۃ المائدۃ،آیت42)

     مذکورہ بالا آیت کریمہ کے تحت حضرت علامہ ابو بکر احمد الجصاص علیہ الرحمۃفرماتے ہیں: اتفق جمیع المتاولین لھذہ الآیۃ علی ان قبول الرشا حرام، و اتفقو انہ من السحت الذی حرمہ اللہ تعالیاس آیت کے تمام مفسرین نے اتفاق کیا اس بات پر کہ بے شک رشوت کا قبول کرنا حرام ہے اور اس بات پر (بھی)اتفاق کیا کہ رشوت اس سحت میں سے ہے،جسے اللہ تبارک و تعالی نے حرام فرمایا ہے۔(احکام القرآن للجصاص،ج2،ص607،مطبوعہ کراچی)

     جامع الترمذی میں ہے:لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم الراشی والمرتشیرسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلمنے رشوت دینے اور لینے والے پر لعنت فرمائی۔(جامع الترمذی،ج1،ص248،مطبوعہ کراچی)

     علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ رشوت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:الرشوۃ بالکسر:ما یعطیہ الشخص الحاکم وغیرہ لیحکم لہ او یحملہ علی ما یرید رشوت کسرہ کے ساتھ اس چیز کا نام ہے ، جوآدمی حاکم یا اس کے غیر کو دے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کردے یا وہ چیز اسے ابھارے اس کام پر ، جو رشوت دینے والا چاہتا ہے۔(رد المحتار،ج8،ص42،مطبوعہ کوئٹہ)

     سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰنفرماتے ہیں:”رشوت لینا مطلقاً حرام ہے ۔ کسی حالت میں جائز نہیں ۔ جو پرایا حق دبانے کے لئے دیا جائے رشوت ہے ، یوہیں جو اپنا کام بنانے کے لئے حاکم کو دیا جائے رشوت ہے ۔“(فتاوی رضویہ،ج23،ص597،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

     حضرت علامہ مفتی محمد وقار الدین علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”رشوت کے معنی اپنے مفاد کے لئے یا کسی کی حق تلفی کے لئے رقم دے کر وہ کام کرنا ہے۔ملخصا“(وقار الفتاوی،ج3،ص314،مطبوعہ بزم وقار الدین ، کراچی)

     گناہ کے کام میں معاونت منع ہے ۔چنانچہ اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے:﴿وَلَاتَعَاوَنُوۡاعَلَی الۡاِثْمِ وَالْعُدْوٰنِترجمہ کنز الایمان:اور گناہ اور زیادتی میں باہم مدد نہ دو۔(القرآن،پارہ 6،سورۃ المائدہ،آیت 2)

     دھوکہ دینے والے کے متعلق نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لیس منا من غشناوہ ہم میں سے نہیں ، جو ہمیں دھوکہ دے۔(صحیح المسلم،ج1،ص70،مطبوعہ  کراچی)

     ایک اور حدیث پاک میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لیس منا من غش مسلماً او ضرہ او ماکرہہم میں سے نہیں جو کسی مسلمان کو دھوکہ دے یا اسے ضرر پہنچائے یا فریب دے۔(کنز العمال،ج4،ص26،مطبوعہ لاہور)

     ذلت ورسوائی والے کام سے بچنا ضروری ہے ۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لا ینبغی للمؤمن أن یذل نفسہمومن کو جائز نہیں کہ خود کو ذلت ورسوائی میں مبتلاکرے ۔(جامع الترمذی،ج02،ص498،مطبوعہ لاهور)

     رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:من اعطی الذلۃ من نفسہ طائعاً غیر مکرہ فلیس منا جو شخص بغیر مجبوری اپنے آپ کو ذلت پر پیش کرے ، وہ ہم میں سے نہیں۔(الترغیب و الترھیب،ج2،ص244،مطبوعہ دار الفکر بیروت)

     سیدی اعلی حضرت الشاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں :کسی ایسے امر کاارتکا ب جو قانوناً،ناجائز ہواور جرم کی حد تک پہنچے شرعابھی ناجائز ہوگا کہ ایسی بات کے لئے جر م قانونی کامرتکب ہوکر اپنے آپ کوسزااور ذلت کے لئے پیش کرناشرعابھی روانہیں و قد جاء الحدیث عنہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ینھی المومن ان یذل نفسہ۔(تحقیق نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے حدیث آئی ہے کہ آپ نے مومن کو اپنے  آپ کو ذلت میں ڈالنے سے منع فرمایا۔)ملخصا(فتاوی رضویہ ،ج20،ص192،رضافاؤنڈیشن،لاهور)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم