Jis Aurat Ka Hamal Zaya Ho Jaye Us Se Hamla Auraton Ka Door Bhagna

 

جس عورت کا حمل ضائع ہو جائے، اس سے حاملہ عورتوں کا دُور بھاگنا

مجیب:مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2953

تاریخ اجراء: 04صفر المظفر1446 ھ/10اگست2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کہا جاتا ہے کہ اگر کسی عورت کا حمل ضائع ہو جائے، تو جو حاملہ عورتیں ہوتی ہیں، ان کو اس عورت (جس کا حمل ضائع ہوا ہے) سے دور رہنا چاہیے کیونکہ اگر اس عورت ( جس کا حمل ضائع ہواہے) کا سایہ حاملہ عورتوں کو لگ گیا، تو ان کا حمل بھی ضائع ہو جائے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جس  عورت کا حمل ضائع ہو،اس سے اس لیے دور رہنا کہ جس کو اس  کا سایہ لگے گا،اس کا حمل بھی ضائع ہوگا،یہ بد شگونی کے زمرے میں آتا ہے ،جو کہ شرعاً جائز نہیں ہے، نیز اس میں بیماری اڑ کر لگنے کا تصور موجود ہے  جو کہ باطل محض ہے اور احادیث مبارکہ میں بیماری اڑ کرلگنے کی واضح طور پر نفی فرمائی گئی ہے۔البتہ ! حاملہ عورتوں کو ایسی عورت سے بچنا مناسب ہے  تاکہ ایسا نہ ہو کہ  تقدیر کے مطابق کوئی مصیبت پہنچے تو  لوگوں کا باطل عقیدہ مزید پختہ ہو کہ فلاں عورت کے پاس بیٹھنے کی وجہ سے ہوا ہے اور ممکن  ہےکہ شیطان اس کے دل میں  بھی وسوسہ ڈالے۔

   صحیح بخاری میں ہے” قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا عدوى ولا طيرة“ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”عدوی (یعنی مرض لگنا،متعدی ہونا)نہیں اور نہ بدفالی ہے۔(صحیح البخاری،رقم الحدیث 5707،ج 7،ص 126،دار طوق النجاۃ)

   نبی کریم صلی اللہ تعالی  علیہ  وآلہ وسلم نے بدفالی لینے والوں  سے اپنی بیزاری کا اِظہاران الفاظ میں  فرمایا:” ليس منا من تطير ولا تطير له یعنی جس نے بَدشگونی لی اور جس کے لیے بَدشگونی لی گئی وہ ہم میں  سے نہیں  ہے (یعنی ہمارے طریقے پر نہیں  ہے ) ۔(المعجم الکبیر،رقم الحدیث 355،ج 18،ص 162،مطبوعہ قاھرۃ)

   مکتبۃ المدینہ  کی مطبوعہ کتاب "بد شگونی " میں ہے” حضرت سید نا امام محمد آفندی رُومی بِرکلی علیہ رحمۃ اللہِ الولی الطریقۃ المحمدیۃ میں  لکھتے ہیں  :"بَدشگونی لینا حرام اور نیک فال یا اچھا شگون لینا مُسْتَحَب ہے ۔"(بدشگونی،ص 12،مکتبۃ المدینہ)

   فتاوی رضویہ میں ہے”جسے عام لوگ نَحْس(یعنی منحوس) سمجھ رہے ہیں  اس سے بچنا مناسب ہے کہ اگر حسبِ تقدیر اسے کوئی آفت پہنچے ان کا باطِل عقیدہ اور مستحکم ہوگا کہ دیکھو یہ کام کیا تھا اس کا یہ نتیجہ ہوا اور ممکن کہ شیطان اس کے دل میں  بھی وسوسہ ڈالے۔(فتاویٰ رضویہ ،ج23،ص267، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   فتاوی رضویہ میں ہے”خواہی نخواہی اس(جذامی) کے ساتھ کھانا ضرور بھی نہیں بلکہ جس کی نظر اسباب پر مقتصر ہو اور خدا پر سچاتوکل نہ رکھتا ہو اس کے حق میں بچنا ہی مناسب ہے، نہ یہ سمجھ کر کہ بیماری اڑ کر لگ جاتی ہے کہ یہ خیال تو باطل محض ہے، نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے صحیح حدیثوں میں اسے ردفرمایا۔۔۔بلکہ اس نظر سے کہ شائد قضائے الٰہی کے مطابق کچھ واقع ہواا  ور اس وقت شیطان کے بہکانے سے یہ سمجھ میں آیا کہ فلاں فعل سے ایسا ہوگیا ورنہ نہ ہوتا تو اس میں دین کا نقصان ہوگا۔(فتاوی  رضویہ ،ج21،ص 102،103، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   نوٹ:بد شگونی کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کےلئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب بنام’’بد شگونی ‘‘کا مطالعہ فرمائیں،جس کا لنک یہ ہے:

https://www.dawateislami.net/bookslibrary/ur/bad-shuguni

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم