Commission Ke Naam Par Rishwat Ki Ek Soorat

کمیشن کے نام پر رشوت کی ایک صورت

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-579

تاریخ اجراء:27 ربيع الاخر6144ھ/31 اکتوبر 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک آدمی کسی فیکٹری میں مال یعنی کٹ پیس تیار کر کے دیتا ہے ، وہاں کا مینجراس کمپنی میں  ملازمت پر ہے،مینجراس شخص کو آرڈر لےکر دیتا  ہے،اور  اس  نے  مال دینے والے شخص سے  یہ معاہدہ  کیا ہے کہ جب بھی تمہیں اس فیکٹری سے آرڈر ملے گا،تو  جتنا آرڈرہو گا، اس میں ایک پیس کے پیسے اس کو دینے ہوں گے،اب جب بھی وہ مینجر اسے مال کا   آرڈر دیتا ہے تو آرڈر تیار کرکے دینے  والے شخص کو  ایک پیس کے پیسے مینجر کو دینے  ہوتے ہیں،کیا یہ رقم اس کے لیےمینجر کو دینا جائز ہے یا  پھر یہ رشوت کے زمرے میں آئے گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں یہ معاہدہ خلافِ شرع ہے اور مینجر کا  ہر آرڈر پر ،آرڈر تیار کرنے والے شخص سے ایک پیس کی رقم لینا شرعاً ہرگز  جائز نہیں ہے،شرعی اعتبار سے اس رقم کی حیثیت رشوت کی ہے،کیونکہ  آرڈر تیارکرنے والا شخص محض  اپنا کام نکلوانے کے لیے اُسے وہ رقم  دے گا،تاکہ مینجر اُسے آرڈردیتا  رہےاوراپنا  کام نکلوانے کے لیےکسی کو کچھ دینارشوت کے زُمرے میں آتاہے ، اور رشوت  کا لین دین،ناجائز و حرام اور باعث لعنت  ہے۔عام طور پر اس طرح  رقم کے لین دین کو کمیشن  کا  نام بھی  دیا جاتا ہے،حالانکہ  یہاں آرڈر تیار کرنے والے سے   ہر آرڈر پر ایک پیس کے پیسے  لینے کی کوئی وجہ ہی نہیں ،تو  یہ کمیشن کسی طرح بھی نہیں ہوسکتا،لہٰذا اس طرح رشوت کے لین دین   کو کمیشن کا نام دینے  سے  رشوت  حلال نہ ہوجائے گی، بلکہ وہ حرام ہی رہےگی۔

   نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے  رشوت دینے اور لینے والے   پر لعنت فرمائی ہے ،چنانچہ  جامع ترمذی کی حدیث مبارک ہے:’’عن عبد اللہ بن عمرو قال: لعن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم الراشی والمرتشی‘‘ ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہماسے روایت ہے،فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے اور رشوت لینے والے پر لعنت فرمائی۔(سنن الترمذی،جلد3،صفحہ16،رقم الحدیث1337،دار الغرب الإسلامی ، بيروت)

   رشوت کی تعریف کرتے ہوئےعلامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ رد المحتار میں ارشاد فرماتے ہیں:’’الرشوۃ مایعطیہ الشخص الحاکم وغیرہ لیحکم لہ او یحملہ ما یرید‘‘ترجمہ:رشوت وہ رقم  ہےکہ کوئی شخص حاکم یا کسی اور کو کچھ دے تاکہ وہ اس کے حق میں فیصلہ کردےیا حاکم کو  اپنی چاہت پورا کرنے پر ابھارے۔(رد المحتار علی الدرالمختار، جلد8،کتاب القضاء ،صفحہ42،دار المعرفہ،بیروت)

   سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ  فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:”رشوت لینا مطلقا حرام ہے ، کسی حالت میں جائز نہیں۔ جو پرایا حق دبانے کے لیے دیا جائے، رشوت ہے۔ یوہیں جو اپنا کام بنانے کے لیے حاکم کو دیا جائے رشوت ہے ۔“(فتاوی رضویہ، جلد23، صفحہ597، رضا فاؤنڈیشن، لاهور)

   جب مینجر مال کے آرڈر کرنے وغیرہ کے کاموں  پر کمپنی سے اجرت لیتا ہے،توآرڈر تیار کرنے والے سے  رقم کا مطالبہ کرنے کی کوئی  وجہ نہیں،لہذا یہ رقم کسی طرح کمیشن نہیں ہوسکتی،جیسا کہ در مختار مع رد المحتار میں ہے:’’(وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع)وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له‘‘ترجمہ:بہرحال بروکر تو اگر وہ کسی چیز کو مالک کی اجازت سے خود بیچے، تو اس کی اجرت بائع پر لازم ہوگی،اور اس کے لیے مشتری(خریدنے) والے سے کوئی چیز لینا جائز نہیں ہوگا،کیونکہ وہ حقیقت میں عاقد ہے،شرح الوھبانیہ،اور ظاہر یہ ہے کہ یہاں عرف کا بھی اعتبار نہیں کیا جائے گا،کیونکہ خریدنے والے سے کوئی چیز لینے کی کوئی  وجہ نہیں۔(درمختار مع رد المحتار، جلد7، صفحہ93،دار المعرفہ،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم