Binary Trading Halal Hai Ya Haram?

بائنری ٹریڈنگ کا حکم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2291

تاریخ اجراء: 08جمادی الثانی1445 ھ/22دسمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   انٹر نیٹ پر ارننگ کے لئے بائنری ٹریڈنگ نام کا پلیٹ فارم متعارف کروایا گیا ہے،اس میں ٹریڈنگ کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ صارف سب سے پہلے اپنا اکاؤنٹ تشکیل دیتا ہے،پھر پلیٹ فارم میں لاگ ان کرتا ہے،اس کے بعد ٹریڈنگ کے لئے اثاثہ منتخب کرتا ہے یعنی کون سی چیز مثلاً کرنسی،کرپٹو،سونا وغیرہ  میں ٹریڈنگ کرنی ہے،(یعنی اس کی قیمت کااندازہ لگاناہے)اس کا انتخاب کرتا ہے ،اس کے بعد ایکسپائر ٹائم سلیکٹ کرتا ہے یعنی کتنے ٹائم میں ٹریڈنگ مکمل کرنی ہے ،اس کے بعد ٹریڈنگ کے لئے رقم کا انتخاب کرتا ہے یعنی کتنی رقم کی ٹریڈنگ کرنی ہے ،کم از کم رقم ایک ڈالر ہونی ضروری ہے،(یعنی اس میں حصہ لینے کے لیے  کچھ نہ کچھ رقم جمع کروانی ہوتی ہے ،پھررقم کے حساب سے جواب درست ہونےپرزائدرقم ملتی ہے)اس کے بعد اصل ٹریڈنگ کرنی ہوتی ہے یعنی منتخب کئے ہوئے اثاثہ کی قیمت آئندہ بڑھے گی یا کم ہوگی،اس کے متعلق پیشن گوئی کرنی ہوتی ہے،اگر صارف کو قیمت بڑھنے کی توقع ہے تو "CALL" کو دباتا ہے اور اگر قیمت کم ہونے کی توقع ہو تو "PUT"دباتا ہے،پیشن گوئی کرنے کے فوراً بعد صارف کی ٹریڈنگ کا نتیجہ ،صارف کے بیلنس پر ظاہر ہوجاتا ہے یعنی پیشن گوئی درست ثابت ہونے پر صارف کو اپنی ٹریڈ کی ہوئی رقم کے ساتھ اتنا نفع ملے گا۔پھر جب واقعتاً پیشن گوئی درست ثابت ہو جائے تو صارف کو اپنی ٹریڈ کی ہوئی رقم کے ساتھ ساتھ مقررہ نفع مل جاتا ہے اور اگر پیشن گوئی درست ثابت نہ ہو  توصارف کی اصل ٹریڈ کی ہوئی رقم بھی ضائع ہو جاتی ہے،اسے نہیں ملتی،شرعی رہنمائی فرمائیں کہ مذکورہ بائنری ٹریڈنگ کرنا جائز ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سوال میں جوٹریڈنگ کی صورت بیان کی گئی ہے وہ ناجائزوحرام ہے کہ  یہ درحقیقت ٹریڈنگ(تجارت) نہیں بلکہ جواہے کیونکہ  یہاں کسی چیزکی خریدوفروخت نہیں  کی جارہی کہ ایک   طرف سے کوئی قیمتی چیزدی جاری ہو،جس کے بدلے میں رقم لی جارہی ہوبلکہ یہاں رقم جمع کرواکر درحقیقت  امیدموہوم پرپانسہ ڈالاجارہاہے کہ اگرمیں نے جو اندازہ لگایاہے کہ اس کی قیمت بڑھے گی یازائدہوگی ،وہ درست ہوگیاتوجتنی رقم جمع کروائی ہے، سامنے والے سے اس سے زائدمل جائے گی اوراگرمیرااندازہ غلط ہواتومیری رقم ضائع ہوجائے گی اوروہ سامنے والے کی ہو جائے گی اوریہی جواہے  اورجواسخت حرام ہے ۔

   جُوئے کی حرمت کے متعلق اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ترجمہ کنز الایمان:اے ایمان والو شراب اور جوااور بت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ ۔(سورۃ المائدۃ،پارہ 7،آیت 90)

   جُوئے کی وضاحت  بیان کرتے ہوئے فخر الدین عثمان بن علی زیلعی حنفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (متوفی 743ھ)تبیین الحقائق میں فرماتے ہیں:” واللفظ للثالث ،القمار من القمر الذی  يزاد تارة، وينقص اخرى، وسمي القمار قمارا لان كل واحد من المقامرين ممن يجوز ان يذهب ماله الى صاحبه، ويجوز ان يستفيد مال صاحبه۔۔۔وهو حرام بالنص“ترجمہ:قمار ،قمر سے مشتق ہے جو کبھی بڑھتا ہے اور کبھی کم ہو جاتا ہے ، قمار کو قمار اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں یہ امکان ہوتاہے کہ جوے بازوں میں سے ایک کامال دوسرے کے پاس چلاجائے اوریہ بھی امکان ہوتاہے کہ وہ اپنے ساتھی کامال حاصل کرلے، اور جوا نص سے حرام ہے ۔(تبیین الحقائق ، مسائل شتی ، ج6، ص 227، مطبوعہ القاھرۃ)

   شرح السیرالکبیرللسرخسی میں ہے "وأما إذا كان المال مشروطا من الجانبين فهو القمار بعينه. والقمار حرام۔۔۔ إذا وقع الاختلاف بين اثنين في مسألة وأراد الرجوع إلى الأستاذ وشرط أحدهما لصاحبه أنه إن كان الجواب كما قلت أعطيتك كذا، وإن كان كما قلت لا آخذ منك شيئا فهذا جائز،وإن كان شرط من الجانبين فهو القمار " ترجمہ: اور بہرحال جب مال دونوں طرف سےمشروط ہوتویہ خالص جوا ہے اورجواحرام ہے ۔ جب دو طلبہ کے مابین اختلاف واقع ہو اور وہ حل کے لئے استاذ کی طرف رجوع کا ارداہ کریں اور ان میں سے ایک دوسرے سے شرط لگائے کہ اگر استاذ کا جواب وہی ہوا جو تونے کہا تو میں تمہیں اتنے پیسے دوں گا اور اگر میرے جواب کے مطابق استاذ کا جواب ہوا تو میں تجھ سے کچھ بھی نہیں لوں گا تو ایسا کرنا جائز ہے اور اگر دونوں کی طرف سے (مال کی) شرط ہو تو وہ جوا ہے۔(شرح السیرالکبیر،ص85،86الشرکۃ الشرقیۃ للاعلانات)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:” اس اجمال کی تفصیل مجمل یہ ہے کہ حقیقت دیکھئے تو معاملہ مذکورہ بنظر مقاصد ٹکٹ فروش و ٹکٹ خراں  ہر گز بیع و شراوغیرہ کوئی عقد شرعی نہیں  بلکہ صرف طمع کے جال میں  لوگوں  کو پھانسنا اور ایک امید موہوم پر پانسا ڈالنا ہے اور یہی قمار ہے۔"(فتاوی رضویہ،ج 17،ص 330،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   بہارشریعت میں ہے " طلبہ نے کسی مسئلہ کے متعلق شرط لگائی کہ جس کی بات صحیح ہوگی اس کو یہ دیا جائے گا، اس میں بھی وہ ساری تفصیل ہے جو مسابقت میں مذکور ہوئی یعنی اگر ایک طرف سے شرط ہو تو جائز ہے دونوں طرف سے ہو تو ناجائز۔ "(بہارشریعت،ج03،حصہ 16،ص609،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم