Binary Trading Ka Sharai Hukum

 

بائنری ٹریڈنگ کا شرعی کا حکم

مجیب:عبدالرب شاکرعطاری مدنی

مصدق: مفتی  محمدقاسم عطاری

فتوی نمبر: Sar-9129

تاریخ اجراء:   04ربیع الثانی1446 ھ/08اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کےبارےمیں کہ بائنری ٹریڈنگ جائز ہے یا ناجائز؟ یہ ایک پلیٹ فارم ہے کہ جس میں صارف پہلے اپنا اکاؤنٹ تشکیل دے کر اس میں  لاگ ان کرتا ہے،پھر ٹریڈنگ کے لیے اثاثہ،مثلاً: کرنسی،کرپٹو،سونا  وغیرہ منتخب کر کے  ٹریڈنگ کرتا ہے،یعنی اس کی قیمت کااندازہ لگانے میں اس کا انتخاب کرتا ہے ،اس کے بعد ایکسپائر ٹائم سلیکٹ کرتا ہے یعنی کتنے ٹائم میں ٹریڈنگ مکمل کرنی ہے ،اس کے بعد ٹریڈنگ کے لیے رقم کا انتخاب کرتا ہے یعنی کتنی رقم کی ٹریڈنگ کرنی ہے ،کم از کم رقم ایک ڈالر ہونی ضروری ہے، (یعنی اس میں حصہ لینے کے لیے  کچھ نہ کچھ رقم جمع کروانی ہوتی ہے ،پھررقم کے حساب سے جواب درست ہونے پرزائدرقم ملتی ہے)اس کے بعد اصل ٹریڈنگ کرنی ہوتی ہے یعنی منتخب کیے ہوئے اثاثہ کی قیمت آئندہ بڑھے گی یا کم ہوگی،اس کے متعلق پیشن گوئی کرنی ہوتی ہے،اگر صارف کو قیمت بڑھنے کی توقع ہے،تو ”CALL“ کو دباتا ہے اور اگر قیمت کم ہونے کی توقع ہو تو ”PUT“دباتا ہے،پیشن گوئی کرنے کے فوراً بعد صارف کی ٹریڈنگ کا نتیجہ،صارف کے بیلنس پر ظاہر ہوجاتا ہے یعنی پیشن گوئی درست ثابت ہونے پر صارف کو اپنی ٹریڈ کی ہوئی رقم کے ساتھ اتنا نفع ملے گا۔پھر جب واقعتاً پیشن گوئی درست ثابت ہو جائے ،تو صارف کو اپنی ٹریڈ کی ہوئی رقم کے ساتھ ساتھ مقررہ نفع مل جاتا ہے اور اگر پیشن گوئی درست ثابت نہ ہو، توصارف کی اصل ٹریڈ کی ہوئی رقم بھی ضائع ہو جاتی ہے،اسے نہیں ملتی،شرعی رہنمائی فرمائیں کہ مذکورہ بائنری ٹریڈنگ کرنا ،جائز ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سوال میں ذکر کردہ صورت کے مطابق بائنری ٹریڈنگ جوئے اور باطل یعنی ناحق طریقے سے مال لینے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز و حرام ہے۔

   تفصیل یہ ہے کہ شریعت مطہرہ میں بیع(خریدوفروخت) مبادلۃ المال بالمال (یعنی  مال کے ساتھ مال کے تبادلے)کا نام ہے،جبکہ سوال میں مذکور طریقہ کارمیں کسی چیزکی بیع(خریدوفروخت) نہیں ہورہی(یعنی ایسا نہیں ہےکہ ایک   طرف سے کوئی چیزدی جاری ہواور اس کے بدلے میں رقم لی جارہی ہو)،بلکہ یہاں رقم جمع کرواکر قسمت آزمائی جارہی ہےکہ جواس نے قیمت بڑھنے یا کم ہونے کااندازہ لگایاہے،اگروہ درست ہوگیا،توجتنی رقم جمع کروائی ہے،اس سے زائدرقم مل جائے گی اوراگراس کااندازہ غلط ہوا، تواصل رقم بھی ضائع ہوجائے گی اور اسی کو جوا کہتے ہیں کہ اپنا کُل یا بعض مال چلے جانے کا اندیشہ ہو یا مزید مل جانے کی امید ہو۔نیز اس میں دوسرے کا مال ناحق طریقے سے کھانا پایا جارہا ہے،جو کہ ناجائز و حرام ہے،لہذا اس طرح کی ٹریڈنگ شرعا جائز نہیں ہے۔

   بیع کی تعریف سے متعلق فتاوی عالمگیری میں ہے:”اما تعریفہ فمبادلۃ المال بالمال بالتراضی “ترجمہ:بہر حال بیع کی تعریف  یہ ہے کہ مال کا مال کے ساتھ رضامندی سے تبادلہ کرنا۔(الفتاوی الھندیہ،جلد3،صفحہ2،مطبوعہ دارالفکر،بیروت)

   جُوئےکی تعریف سےمتعلق بحر الرائق میں ہے:”القمار من القمر الذی  يزاد تارة، وينقص اخرى، وسمي القمار قمارا لان كل واحد من المقامرين ممن يجوز ان يذهب ماله الى صاحبه، ويجوز ان يستفيد مال صاحبه فیجوز الازدیاد والنقصان فی کل واحدۃ منھما فصار ذلک قمارا “ ترجمہ:قمار ،قمر سے مشتق ہے جو کبھی بڑھتا ہے اور کبھی کم ہو جاتا ہے ، قمار کو قمار اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں یہ امکان ہوتاہے کہ جوئے بازوں میں سے ایک کامال دوسرے کے پاس چلاجائے اوریہ بھی امکان ہوتاہے کہ وہ اپنے ساتھی کامال حاصل کرلے،تو دونوں کے مال میں گھٹنا بڑھنا ممکن ہے،تو یہ قمار ہوگیا ۔(البحر الرائق ، جلد9، صفحہ360، مطبوعہ کوئٹہ)

   جُوئے کے ناجائز وحرام ہونے کے متعلق ارشادِ خداوندی ہے:﴿ یَسْـئــلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِقُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا وَ یَسْـَٔلُوۡنَکَ مَاذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلِ الْعَفْوَ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ﴾ترجمہ کنز الایمان:’’ تم سے شراب اور جوئے کا حکم پوچھتے ہیں، تم فرما دو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے کچھ دنیوی نفع بھی اور ان کا گناہ ان کے نفع سے بڑا ہے اور تم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں ؟ تم فرماؤ : جو فاضل بچے ، اسی طرح اللہ تم سے آیتیں بیان فرماتاہےتاکہ تم غوروفکر کرو۔‘‘ (القرآن،پارہ2، سورۃالبقرہ،آیت219)

   اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر خازن میں ہے:”وأما الميسر فهو القمار واشتقاقه من اليسر لأنه أخذ مال بسهولة من غير تعب۔۔۔واما حکم الآیۃ فالمراد بہ جمیع انواع القمار،فکل شیء فیہ قمارفھو من المیسر“ترجمہ:بہر حال میسر تو وہ جوا ہے اور میسر کا لفظ ”یسر“ سے مشتق ہے،اس لیے کہ جوئے میں بغیر کسی تھکاوٹ کے سہولت اور آسانی کے ساتھ مال لے لیا جاتا ہے۔آیت میں میسر سے جوئے کی تمام اقسام  مراد ہیں،لہذا ہر وہ چیز جس میں قمار ہو وہ میسرہے۔(تفسیر خازن،جلد1،صفحہ150،151،مطبوعہ کوئٹہ)

   تفسیر صراط الجنان میں ہے:”اس آیت میں شراب اور جوئے کی مذمت بیان کی گئی ہے۔۔۔۔جوا کھیلنا حرام ہے،جوا ہر ایسا کھیل ہے جس میں اپنا کل یا بعض مال چلے جانے کا اندیشہ ہو یا مزید مل جانے کی امید ہو۔“ (تفسیرصراط الجنان،جلد1،صفحہ336،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”من لعب بالمیسر، ثم قام یصلی فمثلہ کمثل الذی یتوضأ بالقیح ودم الخنزیر ، فتقول اللہ یقبل لہ صلاة“ترجمہ:جو جوا کھیلے پھرنمازکے لیےکھڑاہوتواس کی مثال اس شخص کی طرح ہےجوپیپ اور خنزیرکےخون سےوضوکرتاہے،تو تُویہ کہےگاکہ اللہ عزجل اس بندے کی نماز قبول فرمائے گا ۔(یعنی جس طرح دوسرے بندے کی نماز قبول نہیں اسی طرح جوا کھیلنے والے کی بھی قبول نہیں۔((المعجم الکبیرللطبرانی، مسند من یعرف بالکنی،جلد 22،صفحہ292، مطبوعہ قاھرہ)

   درحقیقت یہ جوا بازی باطل طریقے پر لوگوں کا مال کھانا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے،چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے:﴿ وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ترجمہ:ایک دوسرے کامال نا حق طور پر نہ کھاؤ ۔(القرآن ،سورة البقَرة،آیت 188)

   اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے:”اس آیت  میں باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا خواہ لوٹ کر ہو یا چھین کر ،چوری سے یا جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی گواہی سے یہ سب ممنوع و حرام ہے۔“(تفسیر صراط الجنان،جلد1،صفحہ302،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   اورایسوں کےمتعلق رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاان رجلا یتخوضون فی مال اللہ بغیر حق فلھم النار یوم القیٰمةترجمہ:بے شک کچھ لوگ اللہ کے مال میں ناحق طور پر داخل ہوجاتے ہیں،پس قیامت کے دن ان کے لیے آگ ہوگی۔(مسند امام احمد بن حنبل، ج02 ،ص 410،مطبوعہ بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم