Aankh Phadakne Se Badshaguni Lena Kaisa?

آنکھ پھڑکنے سے بدشگونی لینے کا حکم

مجیب: مولانا اعظم عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-3076

تاریخ اجراء:13ربیع الاول1446ھ/16ستمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی کی دائیں آنکھ پھڑکے تو کیا ہوتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بائیں آنکھ پھڑکنے کو کچھ برا ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے،اور  یہ  نظریہ  رکھنا کہ آنکھ پھڑکنے  کی وجہ سے کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے تو یہ بدشگونی ہے  اور کسی چیز سے بد شگونی لینا مسلمانوں کا طریقہ  نہیں  بلکہ غیر مسلموں کا شیوہ ہے۔ لہذا ایسے  نظریات سے بچنا چاہیے۔اوراللہ تعالی پرتوکل اوربھروسہ رکھناچاہیے ،  بحیثیت مسلمان ہمارا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ اچھائی برائی، غمی خوشی ،اسی طرح کسی کام کا سنورنابگڑنا، الغرض کوئی کام بھی اللہ رب العالمین کی مشیت کے بغیرممکن نہیں۔ 

   قرآن پاک میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتاہے ﴿ قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِكَ وَ بِمَنْ مَّعَكَ ط-قَالَ طٰٓىٕرُكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ﴾ ترجمہ کنز الایمان: بولے ہم نے برا شگون لیا تم سے اور تمہارے ساتھیوں سے  فرمایا تمہاری بدشگونی اللہ کے پاس ہے  بلکہ تم لوگ فتنے میں پڑے ہو۔ (پارہ 19،سورۃ النمل،آیت 47)

    مذکورہ آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے” یاد رہے کہ بندے کو پہنچنے والی مصیبتیں اس کی تقدیر میں  لکھی ہوئی ہیں ۔۔۔ اورمصیبتیں  آنے کا عمومی سبب بندے کے اپنے برے اعمال ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے﴿ وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍ ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تمہیں  جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں  کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔

   اور جب ایسا ہے تو کسی چیز سے بد شگونی لینا اور اپنے اوپر آنے والی مصیبت کو اس کی نحوست جاننا درست نہیں  اور کسی مسلمان کو تو یہ بات زیب ہی نہیں  دیتی کہ وہ کسی چیز سے بد شگونی لے کیونکہ یہ تو مشرکوں  کا ساکام ہے جیساکہ حضرت عبداللہ بن مسعود  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تین بار ارشاد فرمایا کہ بد شگونی شرک (یعنی مشرکوں  کا سا کام) ہے اور ہمارے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ،اللہ تعالٰی  اسےتوکُّلکے ذریعے دور کر دیتا ہے۔ (صراط الجنان،ج 7،ص 211،212،مکتبۃ المدینہ)

   حدیث پاک میں ہے” ثلاث لم تسلم منها هذه الأمة: الحسد والظن  والطيرة،  ألا أنبئكم بالمخرج منها! إذا ظننت فلا تحقق،  وإذا حسدت فلا تتبع،  وإذا تطيرت فامض‘‘  ترجمہ: تین خصلتیں اس امت سے نہ چھوٹیں گی، حسد، بدگمانی اور بدشگونی، کیامیں تمہیں ان کا علاج نہ بتادوں،  بد گمانی آئے تو اس پر کاربند نہ ہو اور حسد آئے تو محسود پر زیادتی نہ کرواور بدشگونی کے باعث کام سے نہ رکو ۔ (کنز العمال،رقم الحدیث 43789،ج 16،ص 27،28، مؤسسة الرسالة )

   شیخِ محقق عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:”(ترجمہ) براشگون لینے کا،فائدہ حاصل کرنے اور نقصان کے دور کرنے میں کچھ دخل نہیں ہے ،اس کا عقیدہ نہیں رکھنا چاہیے اور اس کا اعتبار نہیں کرنا چاہیے جو کچھ ہونے والا ہے ،ہو کر رہے گا۔شارع  علیہ السلام نے اس کا اعتبار نہیں کیا اور اسے دخل نہیں دیا۔‘‘(اشعۃ اللمعات مترجم،ج5،ص755،مطبوعہ:فرید بک سٹال)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:”(ترجمہ) حضور سید عالم  صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :بری فال نکالنا اور اس پر کار بندہونا مشرکین کا طریقہ اور دستور ہے۔   "(فتاوی رضویہ ،ج 23، ص 266، رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم