سجدہ تعظیمی کا حکم

مجیب:مفتی فضیل صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Pin-6048

تاریخ اجراء:09رمضان المبارک1440ھ/15مئی2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ سجدہ تعظیمی کی شرعی حیثیت کیاہے؟شرعاًجائزہے یانہیں؟قرآن وسنت کی روشنی میں بیان فرمائیں۔                         

سائل:محمدتحسین عطاری(سیکٹر03،نارتھ کراچی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    سجدہ کی دوقسمیں ہیں:(1)سجدۂ عبادت(2)سجدۂ تعظیمی ۔

    سجدۂ عبادت اللہ کاحق ہے ، جوغیرخداکےلیےکسی بھی شریعت میں لمحہ بھرکے لیے بھی جائزنہیں ہوا ۔ اگر غیر خدا کو سجدہ عبادت کسی نے کیا ، تو واضح طور پر کافر ہوجائے گا ، جبکہسجدۂ تعظیمی(یعنی اللہ کی طرف سےکسی کوملنے والی عظمت کے اظہارکے لیےسجدہ کرنا)پچھلی شریعتوں میں جائزتھا ۔ جیسے حضرت آدم علیہ السلام کوفرشتوں نے اورحضرت یوسف علیہ السلام کو آپ کے بھائیوں اورآپ کےوالدین نے سجدہ کیا، لیکن  ہماری شریعت میں  یہ سجدۂ تعظیمی منسوخ ہوچکاہے ، لہذاشریعت محمدیہ میں تاقیامت غیرخداکےلیےسجدۂ تعظیمی سخت ناجائزوحرام ہےاور تعظیماً سجدہ کرنے والاسخت گنہگار اور عذاب نار کا حقدار ہوگا ، ہاں کافر نہ ہوگا ، کسی قسم کا حکم کفر اس پر عائد نہ ہوگا ۔

    تفسیرمظہری وتفسیردرمنثوروغیرہ میں ہے:”أن رجلا قال:يا رسول الله نسلم عليك كما يسلم بعضنا على بعض أفلا نسجد لك قال: لا ولكن أكرموا نبيكم واعرفوا الحق لأهله فانه لا ينبغي أن يسجد لأحد من دون الله“یعنی ایک صحابی نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم! ہم حضور کو بھی ایسا ہی سلام کرتے ہیں ، جیسا کہ آپس میں۔  کیا ہم حضور کو سجدہ نہ کریں ؟ فرمایا: نہیں ، بلکہ اپنے نبی کی تعظیم کرو اور سجدہ خاص حق خدا کا ہے۔اسے اسی کے لئے رکھو اس لئے کہ اللہ کے سوا کسی کو سجدہ جائز نہیں۔

(الدرالمنثور،ج02،ص250،دارالفکر،بیروت)

    مشکوٰۃالمصابیح میں بحوالہ ترمذی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:”لو كنت آمر أحدا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها“یعنی اگرمیں کسی کوکسی(مخلوق)کے لئے سجدہ کرنے کاحکم دیتاتوعورت کوضرورحکم دیتاکہ وہ اپنے شوہرکوسجدہ کرے۔

(مشکاۃالمصابیح،کتاب النکاح،ج02،ص972،المکتب الاسلامی،بیروت)

    اس حدیث کے تحت حضرت ملاعلی قاری علیہ رحمۃ الباری تحریرفرماتے ہیں:”إن السجدة لا تحل لغير الله“یعنی غیراللہ کے لئے سجدہ حلال نہیں ہے۔                                                                                                   (مرقاۃالمفاتیح،کتاب النکاح،ج06،ص369،مطبوعہ کوئٹہ)

    فتاوی عالمگیری میں ہے:”من سجد للسلطان على وجه التحية أو قبل الأرض بين يديه لا يكفر ولكن يأثم لارتكابه الكبيرة هو المختار۔قال الفقيه أبو جعفر-رحمه الله تعالى - وإن سجد للسلطان بنية العبادة فقد كفر“یعنی جس نے کسی حاکم کو بطور تعظیم سجدہ کیایااس کےسامنے زمین چومی وہ کافر نہ ہوگا ہاں گناہگارضرور ہے کیونکہ ا س نے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔یہی مختارہے۔امام ابوجعفرعلیہ الرحمۃنے فرمایاکہ اگرحاکم کو سجدہ بطور عبادت کیا تو کافر ہوگا۔

(ملتقطااز الفتاوی الھندیۃ،کتاب الکراھیۃ،ج05،ص369،مطبوعہ کوئٹہ)

    صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں:”سجدہ تحیت یعنی ملاقات کے وقت بطورِ اکرام کسی کو سجدہ کرنا حرام ہے اور اگر بقصد عبادت ہو تو سجدہ کرنے والا کافر ہے کہ غیر خدا کی عبادت کفر ہے۔“

(بہارِشریعت،ج03،ص473،مکتبۃالمدینہ،کراچی)

    تفصیل کے لیےمجدداعظم امام احمدرضاخان علیہ رحمۃالرحمٰن کےرسالہ "الزبدۃ الزکیۃ لتحریم سجود التحیۃ"کامطالعہ کیجیے ۔ اس میں آپ علیہ الرحمۃنے ایک آیت کریمہ،چالیس احادیث اورڈیڑھ سوفقہائے کرام کے ارشادات سےسجدۂ تعظیمی کی حرمت کوبیان فرمایاہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم