موبائل اکاؤنٹ اور فری منٹ کا حکم

مجیب:مولانا عرفان صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:lar:6157

تاریخ اجراء:01ربیع الاول1438ھ/01دسمبر2016ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک کمپنی نے یہ اسکیم بنائی ہے کہ اگرکوئی شخص اپنےموبائل میں اکاؤنٹ بنالیتاہے

     اورپھر ریٹیلرکے ذریعے اپنے اکاؤنٹ میں کم ازکم 1000روپیہ جمع کروادےاورایک دن گزرجائے، توکمپنی اس شخص کومخصوص تعدادمیں فری منٹس دے دیتی ہے ۔ اس اکاؤنٹ کے کھلوانے کے لیے کوئی فارم وغیرہ فل نہیں کرناپڑتااورفری منٹس ملنااس شرط کے ساتھ مشروط ہوتاہے کہ اکاؤنٹ میں کم ازکم1000روپیہ جمع رہیں ، جیسے ہی ایک روپیہ اس مقدارسے کم ہوگا ، تویہ سہولت ختم ہوجائے گی۔

     موبائل اکاؤنٹ میں ایک سہولت یہ بھی ہے کہ اپنے اس اکاؤنٹ کے ذریعے منی ٹرانسفربھی کی جاسکتی ہے اوراس صورت میں ریٹیلرکے ذریعے بھیجنے کی نسبت 22فیصدکم پیسے لگیں گے اوراس سہولت کے لیے پہلے سے کوئی رقم ہوناضروری نہیں ہے ۔ جس وقت رقم بھیجنی ہے اسی وقت وہ رقم ساتھ میں ٹیکس ڈلوا کرٹرانسفرکردیں ، توٹرانسفرہوجائے گی ۔ٹیکس سے مرادٹرانسفرکی فیس ہےاوراکاؤنٹ بنانے پربھی کسی قسم کاکوئی پیسہ نہیں لگے گااوراس صورت میں فری منٹس وغیرہ کی کوئی سہولت بھی نہیں ملے گی ، جبکہ رقم ایک دن جمع نہ رکھیں بلکہ اسی دن کے اندرٹرانسفرکردیں۔

     اس اکاؤنٹ میں ایک سہولت یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعےبل بھی جمع کروایاجاسکتاہے اوریہ بل جمع کروانے کے لیے بھی کوئی رقم اکاؤنٹ میں ہوناضروری نہیں اوراس جمع کروانے پرکوئی ٹیکس بھی نہیں لگے گااوراس صورت میں فری منٹس وغیرہ کی کوئی سہولت بھی نہیں ملے گی ، جبکہ رقم ایک دن جمع نہ رکھیں بلکہ اسی دن کے اندرٹرانسفرکردیں۔

     شرعی رہنمائی فرمائیں کہ :

     (1)اس طرح کااکاؤنٹ کھلواکرفری منٹس لیناجائزہے یانہیں اورجو ریٹیلررقم جمع کرتاہے ، اس کے لیے کیاحکم ہے ؟

     (2)اگرکوئی اس ارادےسے اکاؤنٹ کھلوائے کہ میں فری منٹس نہیں لوں گا ، فقط رقم ٹرانسفرکرنے یابل جمع کروانے کے لیے رقم جمع کرواؤں گااوراسی وقت ہی رقم ٹرانسفرکردوں گایابل جمع کروادوں گاایک دن گزرنے ہی نہیں پائے گا،توکیااس طرح اکاؤنٹ کھلواناشرعاًجائزہے ؟

     (3)اوراگرکسی نےاکاؤنٹ کھلوالیاہے ، کیاوہ اس اکاؤنٹ کواس نیت سے باقی رکھ سکتاہے کہ وہ ایک دن تک رقم جمع نہیں رہنے دے گا ، بلکہ فقط رقم ٹرانسفرکرنے یابل جمع کروانے کے لیے رقم جمع کرواکراسی وقت رقم ٹرانسفرکردے گایابل جمع کروادے گا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     (1)ہزارروپے اکاؤنٹ میں جمع کروانے کے بدلےجو فری منٹس ملتے ہیں ، وہ سوداورحرام ہیں ، لہذااتنی یااس سے زائدرقم مذکورہ طریقے پرجمع رکھناناجائزوحرام ہے اورجوریٹیلرجمع کرے گا ، وہ بھی گنہگارہے کہ گناہ کے کام پرمددکررہاہے۔

     تفصیل اس میں یہ ہےکہ جمع کروائے جانے والے 1000 روپے نہ امانت ہیں اورنہ تحفہ(ہبہ)بلکہ قرض ہیں۔تحفہ اس لیے نہیں کہ تحفہ کہتے ہیں کسی چیزکادوسرے کوبلاعوض مالک کردینا، جبکہ اس صورت میں مقصوداسے مالک کرنانہیں ہوتا،مالک کرنامقصودہوتا ، توپیسے واپس نہ لیے جاتے۔دررمیں ہے : ھی تملیک عین بلا عوضترجمہ:ہبہ نام ہے کسی عین کابغیرعوض مالک کردینا۔(دررشرح غرر،ج2،ص217،داراحیاء الکتب العربیۃ)

     اورامانت اس لیے نہیں کہ امانت والے پیسوں کوخرچ نہیں کرسکتے ، بلکہ بعینہ وہی رقم واپس کرنی ہوتی ہے ، جبکہ یہاں جمع کروائی گئی رقم کوکمپنی استعمال کرتی رہتی ہے اورواپسی میں اس کی مثل رقم دیتی ہے اوریہی قرض ہے ۔یہ بات یادرہے کہ قرض ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ قرض کا لفظ ہی استعمال کیاجائے،بلکہ اگرقرض کالفظ استعمال نہ کیا ، لیکن مقصود وہی ہے ، جو قرض سے ہوتاہے ، تووہ قرض ہی ہوگا،کیونکہ عقودمیں اعتبارمعانی کاہوتاہے ۔بدائع الصنائع میں ہے :إذا لم یمکن تصحیحہا مضاربۃ تصح قرضالأنہ أتی بمعنی القرض والعبرۃ فی العقود لمعانیھاترجمہ:جب اس کومضاربت نہیں بناسکتے ، تووہ قرض ہوجائے گا ، کیونکہ یہ قرض کے معنی میں ہے اور عقودمیں ان کے معانی کااعتبارہوتاہے۔(بدائع الصنائع،ج6،ص86،دارالکتب العلمیۃ)

     اور قرض کی تعریف تنویرالابصارمیں یوں بیان کی گئی ہے : ھوعقد مخصوص یرد علی دفع مال مثلی لآخر لیرد مثلہترجمہ : قرض وہ عقدمخصوص ہے ، جس میں مثلی مال دیاجاتاہے اس لیے کہ اس کامثل واپس کیاجائے۔ (درمختارمع ردالمحتار،ج7،ص406،07،کوئٹہ)

     فتاوی رضویہ میں ہے : ” زر امانت میں اس کو تصرف حرام ہے۔“(فتاوی رضویہ ،ج19،ص166،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

     اوراس رقم کوجمع کروانے کے بدلے میں حاصل ہونے والی رقم،فری منٹس اورایس ایم ایس،سب قرض سے حاصل ہونے والے منافع ہیں اورجومنافع قرض سے حاصل ہوتے ہیں ، وہ سودہوتے ہیں۔حدیث پاک میں ہے : کل قرض جر منفعۃ فھو ربا ترجمہ:رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:ہروہ قرض جونفع کھینچے ، تووہ سودہے۔ (مسندالحارث،ج1،ص500،مطبوعہ المدینۃ المنورۃ)

     گناہ پرمددکرنے سے قرآن پاک میں منع کیاگیاہے ۔ چنانچہ ارشادخداوندی ہے:﴿ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثْمِ وَالْعُدْوانِترجمہ کنزالایمان:اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو۔(سورۃ المائدۃ،پ6،آیت2)

     (2)اگرکوئی اکاؤنٹ صرف رقم ٹرانسفرکرنے یابل جمع کروانے کے لیےکھلوائے اورایک دن رقم جمع نہ رہنے دے ، تواس کے باوجود اکاؤنٹ کھلوانا ، جائزنہیں ،  کیونکہ جب یہ بات معروف ہے کہ اکاؤنٹ کھلوانے کے بعداگرایک دن رقم جمع رہی ، توفری منٹس ملیں گے ، تواب اکاؤنٹ کھلوانے والاگویایہ اقراروپیمان کررہاہے کہ اگرمیں نے ایک دن رقم جمع رہنے دی ، توفری منٹس لوں گااوریہ اقراروپیمان ہی  ناجائزہے اگرچہ بعدمیں ایک دن رقم جمع نہ رہنے دے۔فتاوی رضویہ میں ہے : ” ملازمت بلااطلاع چھوڑ کر چلاجانا اس وقت تنخواہ قطع کرے گا نہ تنخواہ واجب شدہ کوساقط اور اس پرکسی تاوان کی شرط کرلینی مثلا نوکری چھوڑناچاہے ، تو اتنے دنوں پہلے سے اطلاع دے، ورنہ اتنی تنخواہ ضبط ہوگی ، یہ سب باطل وخلاف شرع مطہر ہے، پھر اگر اس قسم کی شرطیں عقد اجارہ میں لگائی گئیں جیساکہ بیانِ سوال سے ظاہر ہے کہ وقتِ ملازمت ان قواعد پر دستخط لے لیے جاتے ہیں یا ایسے شرائط وہاں مشہور ومعلوم ہو کرالمعروف کالمشروط ہوں، جب تو وہ نوکری ہی ناجائز وگناہ ہے کہ شرط فاسد سے اجارہ فاسد ہوا اور عقد فاسدحرام ہے اور دونوں عاقد مبتلائے گناہ اور ان میں ہر ایک پر اس کا فسخ واجب ہے اور اس صورت میں ملازمین تنخواہ مقرر کے مستحق نہ ہوں گے، بلکہ اجر مثل کے جو مشاہرہ معینہ سے زائد نہ ہوں، اجر مثل اگر مسمی سے کم ہو ، تو اس قدرخود ہی کم پائیں گے اگرچہ خلاف ورزی اصلا نہ کریں“(فتاوی رضویہ،ج19،ص506 ، 507،رضافاؤنڈیشن،لاهور)

     (3)اوپرواضح ہوچکاکہ یہ اکاؤنٹ کھلوانا ، جائزنہیں ہے اگرچہ رقم ایک دن جمع نہ رہنے دے ، کیونکہ اس میں ایک ناجائزمعاہدہ موجودہے اورناجائزمعاہدہ جس طرح ابتداءً کرنا ، جائزنہیں ، اسی طرح اس ناجائزمعاہدے کوبرقراررکھنابھی جائزنہیں ہوتا ، لہذاجس نے اکاؤنٹ کھلوالیاہے ، اس پرلازم ہے کہ یہ اکاؤنٹ ختم کرے ۔ جیساکہ اوپرفتاوی رضویہ کے جزئیہ میں امام اہلسنت علیہ الرحمۃ نے ناجائزشرط کی وجہ سے جب عقدکوناجائزقراردیا ، توبعدمیں اس کے فسخ کرنے کولازم قراردیاہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم