کمپنی مینیجر کا مال پاس کرنے کے لیے کمیشن لینا کیسا؟

مجیب:مفتی ہاشم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Lar-9964

تاریخ اجراء:28محرم الحرام1442ھ/17ستمبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائےدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ میں مختلف کمپنیوں میں مال دیتا ہوں ،تو کمپنی کے  مینیجر ہم سے ڈیل کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اگر اپنا مال نکلوانا ہے،تو ہمیں بھی کچھ کمیشن دو، ورنہ ہم اس مال میں نقص وغیرہ بتا کے روک دیں گے،حالانکہ مینیجرکمپنی سے اسی کام کی  تنخواہ لیتا ہے کہ مینیجرہر وہ مال جو کمپنی کےمتعلق اور اُس کےلیے نفع بخش اور اُس کے وارے میں ہو اُسے پاس کرے، تو اس کا ایسا کرنا کیسا اور اس کو پیسے دینا کیسا؟اس کاشرعی حکم کیا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    مال اوکے(ok)کرنا، پاس کرنا مینیجرز کے اجارے میں شامل ہے، لہٰذا ان پرلازم ہے کہ یہ دیانت داری کے ساتھ درست مال کوپاس کریں اورنادرست مال کوريجیکٹ کردیں۔جومال اوکےہونےکےلیے ان کےپاس آئےگااس کی دوصورتیں ہوں گی:(1)یاتووہ مال نادرست ہوگا۔(2)یادرست ہوگا۔

     (1)جونادرست ہے اس کوپاس کرنااپنے عہدے سے خیانت،جھوٹ اور اپنی کمپنی کو دھوکہ دیناہےاوریہ سب ناجائزوحرام ہے اوراگرپیسے لے کر ایسے مال کوپاس کرے گا،تویہ رشوت ہوگی کہ مال پاس کروانے والا اپناکام نکلوانے کے لیے پیسے دے رہاہے  اور یہ لے رہا ہےاور رشوت دینا لینا باعث لعنت،ناجائز و حرام ہے۔

    چنانچہ حضرت  عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے :’’ لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم الراشی والمرتشی‘‘ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے رشوت لینے والے اور دینے والے پر لعنت فرمائی۔

 (سنن ابو داؤد، کتاب القضاء، باب فی کراھیۃ الرشوۃ،جلد2 ،صفحہ 148،مطبوعہ لاھور)

    امام اہلسنت مجدد دین وملت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :’’ر شو ت لینا مطلقاً حر ا م، کسی حا لت میں جائزنہیں۔ جو پرا یا حق دبانے کے لیے د یا جا ئے ،ر شو ت ہے۔ یو ہیں جو ا پنا کام نکلو ا نے کے لیے حاکم کو د یا جا ئے ر شو ت ہے۔‘‘

(فتاوی رضویہ، جلد 23،صفحہ597 ،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

     (2) جودرست مال ہےوہ ایسا ہے کہ کمپنی کے متعلق ہے ،اُس کے لیے نفع بخش ہے اور اُس کے وارے میں بھی ہے۔ اُسےپاس کرنے کے لیے پیسے لینابھی رشوت ہے۔ مزید یہ کہ مذکورہ اوصاف والا مال پاس کرنے پراِن کااجارہ ہے ،تو یہ  کام  دیانتداری سے کرنا ویسے ہی اِن پرواجب ہے،  اوراپنا واجب ادا کرنے کے لیے پیسے وصول کرنا ،جائز نہیں ہے۔ اسی طرح مال تو درست ہے، لیکن کمپنی کو درست مال دینے والے زیادہ ہیں اور مال دینے والا یہ چاہتا ہے کہ میرا مال پہلے نکل جائے یا ان میں سے میرا ہی مال لیا جائے ، اس لیےمینیجر کو پیسے دیتا ہے،تو یہ بھی پہلی صورت میں داخل ہوگا کہ اب وہ جو پیسے دے رہا ہے ، اپنا کام نکلوانے کے لیے ہیں اور یہ بھی رشوت ہے۔

    فتح القدیرمیں ہے: ’’الثانی ارتشاء القاضی لیحکم وھو کذلک حرام من الجانبین. ثم لا ینفذ قضاؤہ فی تلک الواقعۃ التی ارتشی فیھا،  سواء کان بحق أو بباطل. أما فی الحق فلأنہ واجب علیہ فلا یحل أخذ المال علیہ. وأما فی الباطل فأظھر ‘‘ترجمہ:رشوت کی دوسری قسم قاضی کافیصلہ کرنے کے لیے رشوت لیناہے اوریہ بھی پہلی قسم کی طرح جانبین(لینے والے اوردینے والے دونوں)کی طرف سے حرام ہے ،پھراس واقعہ میں جس میں اس نے رشوت لی ہے ،اس کی قضاء نافذنہیں ہوگی چاہے وہ حق ہویاباطل ،رہاحق تووہ اس لیے کہ اس کافیصلہ کرنااس پرواجب تھا،لہٰذااس پرمال لینااس کے لیے حلال نہیں اوررہاباطل تویہ زیادہ ظاہرہے۔

(فتح القدیر،جلد7،صفحہ254،دارالفکر،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم