فلموں،ڈراموں اور گانوں کی سی ڈیز بیچنے سے متعلق چند احکام؟

مجیب:مولانا شاکر صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Sar:7117

تاریخ اجراء:24ربیع الاول 1442ھ/11نومبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

        کیافرماتےہیں علمائے دین  و مفتیان شرع متین اس مسئلے  کے  بارے  میں کہ فلموں، ڈراموں اورگانوں کی سی ڈیز فروخت کرناکیساہے؟ اوردوکان پرمذکورہ سی ڈیز فروخت کرنے پراجارہ کرناکیساہے؟اوراس کام پرجوتنخواہ ملی وہ حلال ہے یاحرام؟اگرمالکِ دوکان تنخواہ کسی اورحلال مال سے دے،دوکان کی آمدنی سے نہ دے ،تووہ تنخواہ لینا شرعاکیساہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

        فلموں،ڈراموں اورگانوں کی سی ڈیزفروخت کرناشرعاًناجائزوگناہ ہے،کیونکہ مروجہ فلمیں،ڈرامےدیکھنااورگانے سننا،ناجائزوگناہ ہے اورسی ڈیزفروخت کرناایک ناجائزکام پرمددکرناہےاورناجائزکام پرمددکرنابھی ناجائزوگناہ ہےاوردوکان پران سی ڈیزکوفروخت کرنے پراجارہ کرنا بھی ناجائزوگناہ ہے،کیونکہ یہ معصیت (گناہ) پراجارہ کرناہےاورگناہ پراجارہ کرنابھی گناہ ہےاوراس کام پرجوتنخواہ ملے گی وہ بھی حرام ہے،جس سے لی ہے، اسے واپس کرناواجب ،اگرچہ مالکِ دوکان نے حلال مال سے دی ہو۔

        نامحرم عورتوں کودیکھنے کے گناہ ہونے کے بارے میں شعب الایمان میں ہے:عن ابن مسعود: زنا العين النظر، وزنا الشفتين التقبيل، وزنا اليدين البطش، وزنا الرجلين المشيترجمہ:حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے  روایت ہے کہ آنکھ کازنا بدنگاہی ہےاور ہونٹوں کازنا بوسہ لینا ہےاور ہاتھوں کازنا پکڑنا ہےاور پاؤں کازنا (گناہ کی طرف) چلناہے۔

(شعب الایمان،باب معالجۃکل ذنب بالتوبۃ،جزء 9،ص277،مطبوعہ مکتبۃ الرشدللنشر والتوزیع)

        مشكوٰۃ المصابیح میں ہے:’’ انّ النبیّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال اضمنوا الی ستّا من انفسکم اضمن لکم الجنّۃ اصدقوا اذا حدثتم واوفوا اذا وعدتم وادّوا اذا ائتمنتم واحفظوا فروجکم وغضّوا ابصارکم وکفّوا ایدیکم‘‘ ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم مجھے اپنی طرف سے چھ چیزوں کی ضمانت دو ، میں  تمہیں  جنّت کی ضمانت دیتاہوں ۔جب بات کرو سچ بولو ،جب وعدہ کرو تو پوراکرو ،جب امانت رکھوائی جائےتو اداکرو ،اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو ،اپنی آنکھوں کو جھکاکررکھو اور اپنے ہاتھوں کو روک کررکھو۔

(مشکوٰۃشریف ،کتاب الآداب،باب حفظ اللسان والغیبۃ،ج2،ص429،مطبوعہ لاھور)

        میوزک والے گانے سننے کے ناجائزوحرام ہونے کے بارے میں سرکارصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا’’ لیکونن فی امتی اقوام یستحلون الحر و الحریر و الخمر و المعازف‘‘یعنی ضرور میری امت میں وہ لوگ ہونے والے ہیں جو عورتوں کی شرمگاہ (زنا )اور ریشمی کپڑوں اور شراب اور باجوں کو حلال ٹھہرائیں گے ۔

(صحیح بخاری، کتاب الاشربۃ،ج2 ،ص837 ،مطبوعہ کراچی)

مزیدایک اورحدیث پاک میں سرکارصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’عن انس ان رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قال من قعدالی قینۃ یستمع منھاصب اللہ فی اذنیہ الآنک یوم القیمۃ‘‘ترجمہ:حضرت انس سے روایت ہے کہ حضورعلیہ الصلاۃ والسلام نے ارشادفرمایا:جوکوئی گانے والی گویاکے پاس بیٹھ کراس کاگاناسنے ،تواللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے دونوں کانوں میں پگھلاہواسیسہ ڈالے گا۔

(کنزالعمال،رقم الحدیث40669،ج15،ص220،مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)

        علامہ محمد امین ابن عابدین شامی قدس سرہ السامی لکھتے ہیں:’’واستماع ضرب الدف والمزمار وغیر ذلک حرام،وان سمع بغتۃ یکون معذورا ویجب ان یجتھد ان لایسمع‘‘ترجمہ: دف بجانے اور بانسری اورا ن کے علاوہ (دیگر آلاتِ موسیقی)کی آواز سنناحرام ہےاور اگر اچانک سننے میں آگئی تو معذور ہےاور اس پرواجب ہے کہ نہ سننے کی کوشش کرے۔

(ردالمحتار مع الدرالمختار،کتاب الحظر والاباحۃ، ج9،ص651،مطبوعہ کوئٹہ)

        اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:’’مزامیر یعنی آلاتِ لہوولعب بروجہ لہو لعب بلاشبہ حرام ہیں،جن کی حرمت اولیاء وعلماء دونو ں فریق مقتدا کے کلمات ِ عالیہ میں مصرح،ان کے سننے سنانے کے گناہ ہونے میں شک نہیں کہ بعد اصرار کبیرہ ہے۔‘‘

(فتاوی رضویہ،ج24،ص78،79،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

        ناجائزکام پرمددکرنے کے ناجائزہونے کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے(وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ)ترجمۂ کنز الایمان : ’’ اور گناہ اورزیادتی پر باہم مدد نہ دو۔‘‘

(پارہ 6،سورۃالمائدہ،آیت 2)

        امام ابوبکراحمدالجصاص علیہ الرحمۃ مذکورہ بالاآیت کریمہ کے تحت ارشادفرماتے ہیں:’’(وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ)نھی عن معاونۃ غیرناعلی معاصی اللہ تعالی‘‘ترجمہ:آیت کریمہ(وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ)میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والے کاموں میں دوسرے کی مددکرنے سے منع کیاگیاہے۔

(احکام القرآن،ج2،ص429،مطبوعہ لاھور)

        شیخ القرآن مفتی محمدقاسم قادری دامت برکاتہم العالیہ لکھتے ہیں:”یہ انتہائی جامع آیت ِ مبارکہ ہے،نیکی اورتقوی میں ان کی تمام انواع واقسام داخل ہیں اوراثم اورعدوان میں ہروہ چیز شامل ہے جوگناہ اورزیادتی کے زمرے میں آتی ہو۔“

(صراط الجنان،ج3،ص424،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

        اورگناہ کے کام پراجارہ کرنے کے گناہ ہونے کے بارے میں ھدایہ میں ہے:ولایجوز الاستیجار علی الغناء والنوح وکذا سائر الملاھی لانہ استیجار علی المعصیۃ والمعصیۃ لاتستحق بالعقدترجمہ:اور گانے،نوحے اور اسی طرح تمام لہوولعب کے کاموں پر اجارہ ناجائز ہے،کیونکہ یہ معصیت(یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والے کام)ہیں اور معصیت کا استحقاق کسی عقد سے نہیں ہوتا۔

(ھدایہ،کتاب الاجارات،باب الاجارۃ الفاسدۃ،ج3،ص306،مطبوعہ  لاھور)

        بدائع الصنائع میں ہے:’’الاستئجار علی المعاصی أنہ لایصح کاستئجار المغنیۃ والنائحۃ‘‘ترجمہ:ناجائزکاموں پراجارہ کرنا،ناجائزہے، جیسے گاناگانے اورنوحہ کرنے پراجارہ کرنا۔

(بدائع الصنائع،کتاب الاجارہ،ج4،ص39،مطبوعہ  کوئٹہ)

        ناجائزکام کرنے پرملنے والی اجرت کے حرام ہونے کے بارے میں اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمدرضا خان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں:’’حرام فعل کی اجرت میں جوکچھ لیاجائے ،وہ بھی حرام کہ اجارہ نہ معاصی پرجائزہے، نہ اطاعت پر۔‘‘

(فتاوی رضویہ،ج21،ص187،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن ،لاھور)

        اگرچہ مالک ملازم کوحلال مال سے اجرت دے ،تب بھی یہ اجرت ملازم کے لیے ناجائزوحرام ہونے کے بارے میں اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن لکھتے ہیں:’’ایک وہ جس میں خودناجائزکام کرناپڑے،جیسے یہ ملازمت جس میں سودکالین دین،اس کالکھناپڑھنا،تقاضاکرنااس کے ذمہ ہو،ایسی ملازمت خودحرام ہے،اگرچہ اس کی تنخواہ خالص مال حلال سے دی جائے،وہ مال حلال بھی اس کے لیے حرام ہے،مال حرام ہے توحرام درحرام۔‘‘

(فتاوی رضویہ،ج19،ص515،مطبوعہ رضافاؤنڈیشن، لاھور)

        علامہ مفتی محمد وقارالدین قادری رضوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:’’معصیت(ناجائزکام) کرنے پر اجرت بھی معصیت (ناجائز)ہوتی ہے۔لہٰذا جس طرح تصویر بنانا حرام ہے،اس کی مزدوری لینا بھی حرام ہے۔‘‘

(وقارالفتاوی،ج2،ص518،مطبوعہ بزم وقارا لدین ، کراچی)

        حرام اجرت کاحکم بیان کرتے ہوئے علامہ زین الدین ابن نجیم مصری حنفی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں:”وان اعطاہ الاجر وقبضہ لایحل لہ ویجب علیہ ردّہ علی صاحبہ۔“ترجمہ:اور اگر اس(یعنی ناجائز کام کے اجارے پررکھنے والے )نے اسے(یعنی ناجائز کام کرنے پررکھے ہوئے نوکرکو)اجرت  دی اور اس نے اس پر قبضہ کر لیا،تو اس کے لیے یہ اجرت لینا حلال  نہیں اور اس پر واجب ہے کہ اسے(یعنی اجرت کو) اس کے مالک کو لوٹا دے۔

(البحرالرائق،کتاب الاجارۃ،ج8،ص35،مطبوعہ  کوئٹہ)

        صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی لکھتے ہیں:”ان صورتوں میں اجرت لینا بھی حرام ہے،اگر لے لی ہوتو واپس کرےاور معلوم نہ رہا کہ کس سے اجرت لی تھی ،تو اسے صدقہ کردے کہ خبیث مال کایہی حکم ہے۔“

(بھارِ شریعت،اجارہ فاسدہ کابیان،ج 3،ص144، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم