Siddique Akbar رضی اللہ عنہ Ko Abu Bakr Kyun Kaha Jata Hai?

 

سیدنا صدیق  اکبر رضی اللہ عنہ کو ابوبکر کیوں کہا جاتا ہے ؟

مجیب:مفتی ابوالحسن محمد  ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر: JTL-1858

تاریخ اجراء: 23صفر المظفر1446ھ/29اگست 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ابوبکر کہنے کی  وجہ کیا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا  نام عبداللہ اور کنیت ابو بکر تھی ۔محدثین  کرام نے اس کنیت کی دو مختلف  وجوہات بیان کی ہیں:

   (1) عربی زبان میں لفظ ”اب “ کا معنی ہے ”والا“ اور لفظ ِ ” بکر “جوان اونٹ کو کہا جاتا ہے، یعنی جوان اونٹ کے مالک کو ابو بکر کہا جاتا ہےاور حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ كے پاس سواری کےلیے  ہر وقت جوان اونٹ موجود ہوتا  تھا۔

   (2)عربی زبان میں لفظ ِ ”بکر“اولیت (پہلے آنے)کےمعنی پردلالت کرتاہے،مثلاً:صبح کے وقت کو ”بکرۃ“،اور کسی موسم کے ابتدائی پھل کو ”باکورہ“ کہتے ہیں ،اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دین اسلام میں متعدد اولیات حاصل ہیں ،مثلاً:سب سے پہلے ایمان قبول کرنا ،خلافت میں تقدم حاصل ہونا وغیرہ ، لہٰذا اس مناسبت سے آپ کو ابوبکر کہا جاتا ہے ۔

   ابو العباس احمد بن محمد فیومی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ متوفی:(770ھ )  المصباح المنیر میں لکھتے ہیں: البكر بالفتح الفتی من الإبل وبه كنی ومنه أبو بكر الصديق ترجمہ:فتح کے ساتھ لفظ بکر جوان اونٹ کو کہا جاتا ہے ، اسی سے کنیت بھی  لی جاتی ہے،حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت بھی اسی لفظ سے ماخوذہے ۔(المصباح المنیر،جلد1،صفحہ 70،دار الکتب  العلمیہ،بیروت)

   شیخ محقق، شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اشعۃاللمعات میں فرماتے ہیں:بکر بفتح باء و سکون کاف شتر جوان ،بکرہ مؤنث،صدیق اکبر را کہ کنیت ابوبکر است بجھت ہمین است یک وقتی  شتر جوان درزیر ایشاں بودترجمہ:لفظ بکر باء کے فتح اور کاف کے سکون کے ساتھ  جوان اونٹ کو کہتے ہیں  ، مونث کے لیے لفظ بکرہ استعمال  ہوتا ہے ۔حضرت صدیق اکبر کو ابو بکر اسی جہت سے کہا جاتا ہے کہ آپ   کے پاس ہر وقت ایک جوان اونٹ سواری کےلیےموجود ہوتا تھا۔(اشعۃاللمعات،جلد3،صفحہ 24،مطبوعہ کوئٹہ)

   مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ ’’مرآۃ المناجیح ‘‘میں لکھتے ہیں : خیال رہے کہ آپ کا نام عبداللہ ہے اور کنیت ابوبکر ہے،ابو کے معنی ہیں ’’والا‘‘ جیسے: ابوہریرہ ’’بلی والے‘‘،بکر کے معنی ہیں ’’اولیت‘‘، اسی سے ہے ’’بکرہ‘‘ ’’ باکرہ‘‘ اور ’’باکور‘‘،ابوبکر کے معنی ہوئے اولیت والے۔چونکہ آپ ایمان ہجرت حضور کی وفات کے بعد وفات میں اور قیامت کے دن قبر کھلنے وغیرہ سب کاموں میں آپ ہی اول ہیں، اس لیے آپ کو ابوبکر کہا گیا رضی اللہ عنہ۔(مرآۃالمناجیح،جلد6،صفحہ291،قادری پبلشرز،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم