Sahaba Kiram Mein Zyada ilm Wale Kon The?

صحابہ کرام میں زیادہ علم والے کون تھے؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:HAB-0465

تاریخ اجراء:24جمادی الاولی1446ھ/27نومبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا  فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا علم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سےز یادہ تھا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مولاعلی شیر خدا کرم اللہ تعالیٰ وجھہ الکریم کے علم مبارک کے کیا کہنے!اللہ تعالیٰ نےانہیں بےشمار علوم عطا فرمائے،پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم  نےجنہیں بچپن میں پالااور زندگی بھر صحبت سے نوازا،جوسب سے پہلے ایمان قبول کرنے والوں میں سے ہیں،جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے شہر علم کا دروازہ قرار دیااور اکابر صحابہ کرام علیھم الرضوان جن کے علم کی طرف رجوع فرماتے،ان کی شانِ علمی کے کیا کہنے،لیکن علم کے اعلیٰ مدارج پر فائز ہونے کے باوجود،صحابہ میں سب سے زیادہ علم والے نہیں،بلکہ اہلسنت  کے نزدیک جناب صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ تمام صحابہ و اہل بیت حتی کہ مولا علی کرم اللہ وجھہ الکریم سے بھی زیادہ علم والے تھے،اس پر کتب ِ حدیث،شروحِ حدیث،عقائد و فقہ کی نصوص موجود ہیں،لہٰذا جنابِ  مولا علی کرم اللہ وجھہ الکریمکو حضرت صدیق اکبررضی اللہ تعالی عنہ  سے  زیادہ علم والا  کہنا  درست نہیں۔

صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے”اعلم الصحابہ“ ہونے پرکتبِ حدیث وشروح ِحدیث کی نصوص:

   (۱)جناب صدیق اکبررضی اللہ عنہ کےاعلم ہونے کے متعلق صحیحین میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے،آپ فرماتے ہیں،واللفظ لمسلم:”أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلس على المنبرفقال:عبدخيره اللہ بين أن يؤتيه زهرة الدنيا وبين ما عنده فاختار ما عنده!فبكى أبو بكر وبكى، فقال:فديناك بآبائنا وأمهاتنا!قال:فكان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم هو المخير،وكان أبو بكر أعلمنا بهرسول الله صلی الله علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئےاورفرمایا:ایک بندے کو الله نے  اختیار دیا کہ اسے دنیا کی ترو تازگی عطا کرے  یا  وہ نعمتیں جو اس کے پاس ہیں،تو اس بندے نے الله کے پاس کی نعمتیں اختیار کیں،یہ سُن کرحضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ خوب  رونے لگےاور عرض کیا:آپ پر ہمارے ماں باپ فدا،راوی فرماتے ہیں:وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہی تھے جنہیں اختیار دیا گیا تھااور حضرت ابوبکر صدیق ہم میں  سب سے زیادہ علم والے تھے۔(صحیح المسلم،ج07، ص108، رقم2382،دار الطباعة العامرة، تركيا)(صحیح البخاری،ج05، ص04، رقم 3654،السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية، مصر)

   مذکورہ حدیث کے تحت علامہ عینی اور ابن ملقن علیہما الرحمۃلكھتے ہیں،واللفظ لابن ملقن:”وفی قول أبی سعيد:(وكان أبو بكر أعلمنا)هو لائح فی كونه أعلم الصحابة إذ لم ينكره أحد ممن حضر“حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کے قول سے ظاہر ہے کہ   حضرت ابو  بکر   تمام صحابہ کرام  رضی اللہ عنھم اجمعین میں  سب سے زیادہ  علم والے تھے،کیونکہ موجودین میں سے کسی نے اس کا انکار نہیں کیا۔(التوضیح لشرح الجامع  الصحیح، ج 05،ص615،دار النوادر،دمشق)(عمد ۃ القاری،ج04،ص244،دار احیاء التراث العربی)

   مذکورہ حدیث کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃفرماتے ہیں:”معلوم ہوا کہ جناب صدیق اکبر تمام صحابہ اور اہلِ بیت سے بڑے عالم بہت ذکی و فہیم اور سب سے زیادہ مزاج شناس رسول تھے رضی الله عنہ،اسی لیے حضور انور نے اپنے مصلے پر آپ کو کھڑاکیا،امام وہ ہی بنایا جاتا ہےجو سب سے بڑا عالم ہو،سارے صحابہ میں آپ سب سے بڑے عالم تھے۔“(مرآۃ المناجیح،ج08،ص285،نعیمی کتب خانہ ،گجرات)

   (۲)”اعلم“امامت کروانے کا اولین مستحق ہے،اورصحیحین  میں روایت موجود ہے  کہ  سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےاپنے مرض کے دوران جناب صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ  کو  اپنی جگہ نماز پڑھانے کا حکم ارشاد فرمایا، جس سے آپ رضی اللہ عنہکا’’اعلم الصحابہ‘‘ہونا معلوم ہوتا ہے،چنانچہ  ام المؤمنین  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں،واللفظ للبخاری:”أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال فی مرضه: مروا أبا بكر يصلی بالناس“بےشک سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مرض میں ارشاد فرمایا: ابوبکر کو لوگوں کو نماز پڑھانے کا حکم دو۔(صحیح البخاری،ج09،ص98،رقم7303، السلطانيہ، بالمطبعة الكبرى الأميرية، ببولاق مصر) (صحیح مسلم،ج02، ص23، رقم418،دار الطباعة العامرة، تركيا)

   (۳)ایک دوسری روایت میں  حضور اکرم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے  یہاں تک فرمایا:جس قوم میں ابو بکر موجود ہو،اس کی امامت  کوئی اور  نہ کروائے،ملاحظہ ہو:”لا ينبغی لقوم فيهم أبو بكرأن يؤمهم غيره“جس قوم میں ابو بکر موجود ہو،اس کی امامت کوئی اور نہ کروائے۔(سنن ترمذی،ج06،ص51،رقم3673،دار الغرب الإسلامی،بيروت)

   حدیثِ صحیحین  کے تحت ابو الولید باجی،علامہ قسطلانی اور ابو بکر ابن العربی  علیھم الرحمۃ لکھتے ہیں،واللفظ للباجی:”أمر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أبا بكر أن يصلی للناس لأنه كان أفضل الصحابة و أعلمهم“سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکر کو لوگوں کی امامت کا حکم اس وجہ سے فرمایا کہ آپ  تمام صحابہ میں سب سے افضل اور اعلم تھے۔(المنتقی شرح الموطا،ج01،ص305،مطبعة السعادة)(ارشاد الساری،ج02، ص43،المطبعة الكبرى الأميرية، مصر)(المسالک فی شرح الموطا،ج03،ص208، دَار الغَرب الإسلامی)

   علامہ علی قاری علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:”مرواأبا بكر فليصل“وكان ثم من هو أقرأ منه لا أعلم دليل الأول قوله عليه السلام: ”أقرؤكم أبی“،ودليل الثانی قول أبی سعيد:كان أبو بكر أعلمنا“حضرت”ابوبکر  کو نماز پڑھانے کا حکم دو“ کہ صحابہ میں سب سے بڑے قاری  توموجود تھے،لیکن حضرت ابو بکر سے بڑھ کر  کوئی عالم نہ تھا،پہلی بات کی دلیل حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکا فرمان ہے کہ تم میں  سب سے بڑے قاری حضرت اُبَی ہیں،اور دوسری بات کی دلیل حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان ہے کہ ابو بکر ہم میں سب سےزیاد ہ علم والے  ہیں۔(مرقاۃ المفاتیح،ج03،ص863،دار الفکر،بیروت)

صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے”اعلم الصحابہ“ ہونے  پرکتب ِعقائد کی نصوص:

   روافض حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہکو’’اعلم الصحابہ‘‘قرار دیتے ہیں اوراس سےآپ کے خلیفہ بلافصل ہونے پر استدلال کرتے ہیں،اس کا رد کرتے ہوئے محقق جلال الدین دوانی  لکھتے ہیں:”لانسلم أن عليا أعلم الصحابة لأن الأمة اجتمعت على كل من أبی بكر وعمر وعثمان بالتقديم. والمجمع على تقديمه مجمع على أنه أعلم ممن بعده۔۔۔أن أبا بكر قدم فی الصلاة حياة النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم على جميع الآل والصحب وصلوا وراءه.والصلاة بنص جميع الفقهاء الأعلم مستحق للتقديم فيها. وقد قدم، فثبت أنه الأعلم“ہمیں تسلیم نہیں کہ مولا علی کرم اللہ وجھہ صحابہ میں سب سے زیادہ علم والے تھے،کیونکہ  حضرت ابو بکر،عمر اور عثمان رضی اللہ تعالی عنھم کے مقدم ہونے پر اتفاق ہے،اور ان ہستیوں کی تقدیم پر  اتفاق ان کے اپنے مابعد یعنی مولا علی سے زیادہ علم والے ہونے پر اتفاق ہے۔۔۔بےشک سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی مبارک زندگی میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ   کو نماز پڑھانے کے لئے تمام  اہل بیت اور اصحاب پر مقدم کیا گیا،اور ان تمام ہستیوں نے جناب صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے پیچھے نماز ادا فرمائی،اور تمام فقہاء کی صراحت کے مطابق سب سے زیادہ علم والا شخص امامت کے لیے مقدم کیے جانے کا مستحق  ہے،اور جناب صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کو  ہی  مقدم کیا گیا،جس سے آپ کا سب سے زیادہ علم والا ہونا ثابت ہوا۔(الحجج الباهرة فی إفحام الطائفة الكافرة الفاجرة،ص180،181،مكتبة الإمام البخاری)

   علامہ شمس الدين ذھبی  لکھتے ہیں:”ولانسلم أن عليا كان أحفظهم للشرع بل كان أبوبكر وعمر أعلم منه“مولا علی کرم اللہ وجھہ شریعت کے سب سے بڑے حافظ تھے،یہ ہمیں تسلیم نہیں،بلکہ جناب صدیق اکبر اور عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہماان سے زیادہ علم والے تھے۔(المنتقى من منهاج الاعتدال في نقض كلام أهل الرفض والاعتزال،ص 432 ،433،مطبوعہ ریاض)

   علامہ مجد الدين فيروز آبادی   بھی اس حوالے سےرقمطراز ہیں:”ادعى أن علياأفضل الخلق بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم.وذكر على هذا دلائل.منها أنه كان أكثرهم علما۔قلنا:هذا كذب صريح بحت لان أبا بكر أعلم“ان کا دعوی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مخلوق میں سب سے افضل حضرت علی کرم اللہ وجھہ ہیں،اور اس پر انہوں سےکئی دلائل دیئے،ان میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ حضرت علی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سب سے زیادہ علم والے تھے۔ہم نے جواباًکہا:یہ  صریح سیاہ جھوٹ ہے،کیونکہ حضرت ابو بکر صدیقرضی اللہ تعالی عنہ سب سے زیادہ علم والے تھے۔(ملتقطا من الرد على الرافضة أو القضاب المشتهر على رقاب ابن المطهر،ص35،39،مكتبة الإمام البخاري للنشر والتوزيع، مصر)

سیدی اعلی حضرت  علیہ الرحمۃکی نص:

   علم مصطفی صلی  اللہ علیہ آلہ وسلم کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے  سیدی اعلی حضرت نے علم صدیق،عمر اور علیرضی اللہ تعالی عنھم اجمعین کو ترتیب وار بیان فرمایا،جس سے  حضرت صدیق اکبر کا مولا علی سے اعلم ہونا ثابت ہوتا ہے،فتاوی رضویہ میں ہے:”امیرالمومنین علی مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:لوشئت لاوقرت من تفسیر الفاتحۃ سبعین بعیرا،میں چاہوں تو سورہ فاتحہ کی تفسیر سے ستر اونٹ بھروادوں۔ایک اونٹ کَے من بوجھ اٹھاتا ہے اور ہر من میں کَےہزار اجزاء حساب سے تقریباً پچیس لاکھ جزآتے ہیں۔یہ فقط سورہ فاتحہ کی تفسیر ہے،پھر باقی کلام عظیم کی کیا گنتی۔پھریہ علم،علمِ علی ہے۔اس کے بعد علمِ عمر،اس کے بعد علمِ صدیق کی باری ہے ”ذھب عمر بہ تسعۃ اعشار العلم“عمر علم کے نوحصے لے گئے۔کان ابوبکر اعلمناہم سب میں زیادہ علم ابوبکر کو تھا،پھر علم نبی تو علم نبی ہے۔“(فتاوی رضویہ،ج22،ص619،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم