مجیب:مولانا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی
فتوی نمبر:WAT-3121
تاریخ اجراء:12ربیع الثانی1446ھ/16اکتوبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیان شرع واقعہ ہذا میں کہ مکہ میں ایک بندہ کسی ملک کا رہنے والا اپنا اونٹ لے کر آیا، ابوجہل نے اس سے اونٹ لے لیا اور پیسے نہیں دئیے،تو المختصر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاف دلوایا اور اس کا اونٹ یا پیسےابو جہل سے واپس کرائے۔کیا یہ واقعہ درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جی ہاں ! یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و مناقب میں شمار ہوتا ہے، اور یہ سیرت و تاریخ کی کئی معتبر کتب میں موجود ہے۔
چنانچہ سیرت ابن ہشام ،سیرت ابن اسحاق ،البدایہ والنہایہ وغیرہ میں ہے، واللفظ للاول: ” قال ابن إسحاق : ۔۔۔ قدم رجل من إراش قال ابن هشام: ويقال إراشة بإبل له مكة، فابتاعها منه أبو جهل فمطله بأثمانها.فأقبل الإراشي حتى وقف على ناد من قريش، ورسول الله صلى الله عليه وسلم في ناحية المسجد جالس، فقال: يا معشر قريش، من رجل يؤديني على أبي الحكم بن هشام فإني رجل غريب، ابن سبيل، وقد غلبني على حقي؟ قال: فقال له أهل ذلك المجلس: أترى ذلك الرجل الجالس لرسول الله صلى الله عليه وسلم، وهم يهزءون به لما يعلمون ما بينه وبين أبي جهل من العداوة اذهب إليه فإنه يؤديك عليه.
فأقبل الإراشي حتى وقف على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا عبد الله إن أبا الحكم بن هشام قد غلبني على حق لي قبله، وأنا رجل غريب ابن سبيل، وقد سألت هؤلاء القوم عن رجل يؤديني عليه، يأخذ لي حقي منه، فأشاروا لي إليك، فخذ لي حقي منه، يرحمك الله؛
قال: انطلق إليه، وقام معه رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما رأوه قام معه. قالوا لرجل ممن معهم: اتبعه، فانظر ماذا يصنع. قال: وخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى جاءه فضرب عليه بابه. فقال: من هذا؟ قال: محمد، فاخرج إلي، فخرج إليه وما في وجهه من رائحة، قد انتقع لونه، فقال: أعط هذا الرجل حقه؛ قال: نعم، لا تبرح حتى أعطيه الذي له، قال: فدخل، فخرج إليه بحقہ ،فدفعہ الیہ،قال: ثم انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال للاراشي: الحق بشأنك، فأقبل الإراشي حتى وقف على ذلك المجلس، فقال: جزاه الله خيرا، فقد والله أخذ لي حقي․
قال: وجاء الرجل الذي بعثوا معه فقالوا: ويحك! ماذا رأيت؟ قال عجبا من العجب والله ما هو إلا أن ضرب عليه بابه، فخرج إليه وما معه روحه․ فقال له: أعط هذا حقه فقال: نعم، لا تبرح حتى أخرج إليه حقه. فدخل فخرج إليه بحقه، فأعطاه إياه.
قال: ثم لم يلبث أبو جهل أن جاء، فقالوا: ويلك! ما لك؟ والله ما رأينا مثل ما صنعت قط! قال: ويحكم والله ما هو. إلا أن ضرب علي بابي، وسمعت صوته، فملئت رعبا، ثم خرجت إليه، وإن فوق رأسه لفحلا من الإبل، ما رأيت مثل هامته ولا قصرته ولا أنيابه لفحل قط، والله لو أبيت لأكلني․“ ترجمہ:ابن اسحاق نے کہا کہ :ایک شخص اراش قبیلے سے (ابن ہشام کہتے ہیں: اسے "اراشہ" بھی کہا جاتا ہے) اپنے اونٹ لے کر مکہ آیا۔ ابوجہل نے اس سے وہ اونٹ خرید لیے، لیکن قیمت ادا کرنے میں ٹال مٹول کرنے لگا۔ اراشی شخص قریش کی ایک مجلس میں آیا، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے ایک گوشے میں تشریف فرما تھے، اور اس نے کہا: "اے قریش کے لوگو! کون ہے جو مجھے ابوالحکم بن ہشام (ابوجہل) کے خلاف انصاف دلائے؟ میں ایک اجنبی اور مسافر ہوں، اور وہ میرا حق دبا رہا ہے۔ مجلس کے لوگوں نے اسے کہا: "وہ جو بیٹھے ہیں (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)ان کے پاس جاؤ، وہ تمہیں انصاف دلادیں گے ۔ یہ لوگ دراصل مذاق کر رہے تھے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ابوجہل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان دشمنی ہے۔
اراشی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور کہا: اے عبداللہ! ابوالحکم بن ہشام میرا حق مار رہا ہے، اور میں ایک اجنبی مسافر ہوں، میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ کون میرا حق دلائے گا، تو انہوں نے آپ کی طرف اشارہ کیا۔ آپ میرا حق دلوا دیں، اللہ آپ پر رحمت فرمائے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چلو، اس کے پاس چلتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ چل پڑے، اور جب مجلس والوں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ جا رہے ہیں، تو انہوں نے ایک شخص سے کہا: ان کے پیچھے جا اور دیکھو کہ وہ کیا کرتے ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،ابوجہل کے دروازے تک پہنچے اور اس پر دستک دی۔ ابوجہل نے پوچھا: کون ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: محمد، باہر آؤ۔" ابوجہل باہر آیا اور اس کا چہرہ زرد تھا، جیسے کوئی جان نہ ہو، تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: اس شخص کو اس کا حق دو۔ اس نے کہا: ٹھہرو، میں ابھی اس کا حق ادا کرتا ہوں۔ وہ اندر گیا اور فوراً اراشی شخص کا حق لے کر آیا اور اسے دے دیا۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اراشی سے فرمایا: اب تم اپنے کام سے جاؤ۔ اراشی شخص واپس اس مجلس میں آیا اور کہا: "اللہ انہیں جزائے خیر دے، انہوں نے میرا حق دلوا دیا۔ اور وہ شخص جسے مجلس والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بھیجاتھا،وہ مجلس والوں کے پاس آیا تو انہوں نے اس سے کہا: تمہاری بربادی ہو!تم نے کیا دیکھا؟ اس نے کہا: حیرت کی بات ہے،جیسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دروازے پر دستک دی، ابوجہل اس حال میں باہر آیا جیسے اس میں جان ہی نہ تھی،تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)نے اس سے فرمایا :اس کا حق دو تو اس نے کہا جی ہاں!آپ ادھر ہی رہیئے میں اس کا حق لاتا ہوں،پس وہ گھر کے اندر گیا اور اس اراشی کا حق لایا اور اسے دے دیا۔
کچھ دیر بعد ابوجہل وہاں آیا تو لوگوں نے اس سے پوچھا: تمہاری خرابی ہو!تمہیں کیا ہوا؟ ہم نے آج تک تمہیں ایسا نہیں دیکھا! ابوجہل نے کہا: تمہاری بربادی ہو! جب محمد نے میرے دروازے پر دستک دی اور میں نے ان کی آواز سنی، تو میں خوف سے بھر گیا۔ میں باہر آیا اور دیکھا کہ ان کے سر کے اوپر ایک بہت بڑا اونٹ کھڑا تھا، اس اونٹ جیسی کوہان،گردن اور دانت ،میں نےکسی اور اونٹ کے نہ دیکھے ۔ اگر میں انکار کرتا تو وہ اونٹ مجھے کھا جاتا۔(سیرتِ ابن ھشام،ج 1،ص 389،390،مطبوعہ مصر)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی تھی؟
حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ کس نے پڑھائی؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کے کونسے نفل بیٹھ کرپڑھتے تھے؟
کیا یہ درست ہے بعض بزرگ عشاء کے وضو سے فجر کی نمازادا کرتے تھے؟
نقش نعلین پاک کی کیا فضیلت ہے؟
کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سید ہیں؟
حضور عليہ الصلوۃ و السلام کا نام سن کر درود شریف پڑھنے کا حکم
غوث پاک کے قول: