مجیب: مفتی محمدقاسم عطاری
فتوی نمبر:FSD-9148
تاریخ اجراء:22 ربیع الثانی 1446ھ / 26 اکتوبر 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین ان دو سوالات کے بارے میں کہ
(1)کیا نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کسی کا جنازہ اٹھایا ہے، یعنی کسی کے جنازے کو کندھا دینا ثابت ہے؟
(2) کیا حضرت خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کا جنازہ ہوا تھا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حضور رحمت دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کا جنازہ اٹھایا تھا۔ کتبِ احادیث سے ثابت ہے، چنانچہ محی السنۃعلامہ حسین بن مسعود بغوی شافعی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات : 516ھ/ 1122ء) نقل کرتے ہیں:’’أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم حمل جنازة سعد بن معاذ‘‘ ترجمہ: نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت سعد بن معاذ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے جنازہ کو اٹھایا۔ (شرح السنۃ، جلد 05، باب المشی مع الجنازۃ، صفحۃ 337 ، المکتب الاسلامی، بیروت)
یہ روایت حدیث مبارک کی کتاب سے نقل کی گئی ہے،جبکہ اِسی روایت کو فقہائے کرام کی ایک بڑی جماعت نے قبول کر کے ”حمل الجنازۃ“ کے باب میں بھی شامل فرمایا ہے۔
دوسرے سوال کا جواب:
جب اُمُّ المؤمنین حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کا وصال پُرملال ہوا، اُس وقت میت پر نمازِ جنازہ پڑھنے کا حکم ہی وارِد نہیں ہوا تھا، لہذا آپ کا معروف انداز کے مطابق نمازِ جنازہ نہیں پڑھا گیا۔معروف سیرت نگار ابو عبداللہ علامہ محمد بن عبدالباقی زرقانی مالکی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1122ھ/ 1710ء) لکھتے ہیں:’’ماتت خديجة رضی اللہ عنها بمكة قبل الهجرة بثلاث سنين، وقيل بأربع، وقيل خمس، ودفنت بالحجون، وهي ابنةخمس وستين سنة،ولم يكن يومئذيصلي على الجنازة‘‘ ترجمہ:حضر ت خدیجہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کا ہجرت سے تین سال پہلے وصال ہوا اور ایک قول ہجرت سے چار یا پانچ سال پہلے کا بھی ہے۔ اُس وقت آپ کی عمر مبارک 65 سال تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب میت پر نمازِجنازہ نہیں پڑھی جاتی تھی۔(شرح الزرقانی علی المواھب، جلد04، صفحہ 376، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
امامِ اہلِ سنَّت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:’’ فی الواقع کتب سِیَر میں علماء نے یہی لکھا ہے کہ ام المومنین خدیجۃ الکبرٰی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے جنازہ مبارکہ کی نماز نہیں ہوئی کہ اس وقت یہ نماز ہوئی ہی نہ تھی۔ اس کے بعد اس کا حکم ہوا ہے۔‘‘(فتاوٰی رضویہ، جلد09،صفحہ369،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی تھی؟
حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ کس نے پڑھائی؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کے کونسے نفل بیٹھ کرپڑھتے تھے؟
کیا یہ درست ہے بعض بزرگ عشاء کے وضو سے فجر کی نمازادا کرتے تھے؟
نقش نعلین پاک کی کیا فضیلت ہے؟
کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سید ہیں؟
حضور عليہ الصلوۃ و السلام کا نام سن کر درود شریف پڑھنے کا حکم
غوث پاک کے قول: