Nabi Pak Ko Apne Walid Ki Wirasat se Kya Mila?

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنے والد صاحب سے وراثت میں کیا ملا تھا؟

مجیب:مولانا اعظم عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3229

تاریخ اجراء:25ربیع الثانی1446ھ/29اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنے والد صاحب سے وراثت میں کیا ملا تھا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے والد محترم حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی وراثت سےپانچ اونٹ،بکریوں کاریوڑ،ایک لونڈی حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہاجوکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی ماں  بھی ہیں،ایک غلام شقران،اور ایک تلوار ملی، جس کانام ماثور تھا۔

    جبکہ ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام شقرا ن کو حضرت عبد الرحمن بن عوف  رضی اللہ عنہ سے خرید کر آزاد فرمادیا تھا،اور ام  ایمن رضی اللہ عنہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو  اپنی والدہ محترمہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے بطور وراثت ملی تھیں۔

   چنانچہ سبل الہدی والرشاد ،دلائل النبوۃ،سیرت حلبیہ وغیرہ کتب میں ہے”واللفظ للاول” قال محمد بن عمر الأسلمي رحمه الله تعالى:ترك عبد الله أم أيمن وخمسة أجمال وقطعة من غنم فورث ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم من أبيه“ترجمہ:محمدبن عمر اسلمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ حضرت عبد اللہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہما نے اپنے ترکے میں ام  ایمن رضی اللہ عنہا،پانچ اونٹ،اور بکریوں کا ایک  ریوڑ چھوڑا،اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اپنے والد سے ان چیزوں کے وارث ہوئے۔(سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد،ج 1،ص332،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

   سبل الہدی والرشاد  ہی میں   نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام  کی تلواروں کا ذکر کرتےہوئےفرمایا:”الأول: المأثور، وهو أول سيف ملكه، ورثه من أبيه“ترجمہ: نبی پاک علیہ الصلاۃ والسلام   جس پہلی تلوار کے مالک ہوئے وہ ماثور ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے والد حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ  کی وراثت سے ملی ۔ (سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد،ج 7،ص 363،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

   السیرۃ الحلبیہ  میں ہے:”ورث صلى الله عليه وسلم من أبيه مولاه شقران، وكان عبدا حبشيا فأعتقه بعد بدر“ ترجمہ: نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے والد سے ان کے غلام شقران کے وارث ہوئے،یہ حبشی غلام تھے جنہیں نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے بعد آزاد فرمادیا۔(السیرۃ الحلبیۃ،ج1،ص78،دار الكتب العلمية، بيروت)

   ام ایمن رضی اللہ عنہا کے متعلق دوسری روایت السیرۃ النبویہ لابن کثیر میں ہے:”وقد كانت ممن ورثها رسول الله صلى الله عليه وسلم من أبيه،قاله الواقدي،وقال غيره:بل ورثها من أمه“ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ام  ایمن رضی اللہ عنہا اپنے والد کی وراثت سے ملیں،یہ واقدی کا قول ہے،اور ان کے علاوہ نے فرمایا کہ بلکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی  والدہ کی طرف سے بطور وراثت ملیں۔(السیرۃالنبویۃلابن کثیر،ج 4،ص642،دار المعرفۃ، بیروت)

   خلاصہ سیر سید البشر(لابی عباس احمد بن عبد اللہ الطبری،متوفی694ھ)میں غلام شقران کے متعلق  ہے:”شقران واسمه صالح وقيل ورثه من أبيه وقيل اشتراه من عبد الرحمن بن عوف وأعتقه“ترجمہ:آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے غلام شقران جن کانام صالح تھا، کہا گیا ہے کہ یہ آپ کو اپنے والد کی وراثت سے ملے،اور یہ بھی کہاگیا ہے کہ آپ نے انہیں حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے خریدا اور پھر انہیں آزاد فرمادیا۔(خلاصۃ سیر سید البشر، ص150،مطبوعہ: السعودية)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم