Nabi Momino Ki Jaan Se Bhi Ziyada Qareeb Hain

نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  مومنوں کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہیں

مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2484

تاریخ اجراء: 05شعبان المعظم1445 ھ/16فروری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے ہمارے ماں باپ سے بھی زیادہ اولی ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں ! بلاشبہ  حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ماں باپ سےبھی زیادہ ہمارے اولی ہیں اوریہ بات قرآن پاک سے ثابت ہے ۔

   قرآن پاک میں ارشادخداوندی ہے :( اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ) (سورۃ الاحزاب، پ21، آیت06)

   یہاں اولی کےکئی معنی بن سکتے ہیں :"زیادہ مالک،زیادہ حق دار ،زیادہ مہربان ،زیادہ فائدہ مند،اورزیادہ قریب۔"

   تفسیرنسفی میں ہے "{النبى أولى بالمؤمنين مِنْ أَنْفُسِهِمْ} أي أحق بهم في كل شيء من أمور الدين والدنيا وحكمه أنفذ عليهم من حكمها فعليهم أن يبذلوها دونه ويجعلوها فداءه أو هو أولى بهم أي أرأف بهم وأعطف عليهم وأنفع لهم كقوله بالمؤمنين رءوف رحيم"ترجمہ:یعنی دین و دنیا کے امور میں سے ہر شئ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم مؤمنین کی جانوں کے  زیادہ حق دار ہیں،اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام کا حکم،ان پر ان کی جانوں کے حکم سے زیادہ نافذ ہے، تو مؤمنین پر لازم ہے کہ وہ اپنی جانوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش کریں اور آپ پر قربان کریں،یا یہ معنی ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام مؤمنین پر ان کی جانوں سے زیادہ شفیق اور ان پر لطف و مہربانی فرمانے والے اور انہیں نفع پہنچانے والے ہیں جیسا کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام مؤمنین کے لئے رؤوف و رحیم ہیں۔ (تفسیرنسفی،ص932،دارالمعرفۃ،بیروت)

   تفسیر صراط الجنان سے اس کی کچھ تفصیل نقل کی جاتی ہے :

   "اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ:(یہ نبی مسلمانوں کے ان کی جانوں  سے زیادہ مالک ہیں) اَولیٰ کے معنی ہیں: زیادہ مالک، زیادہ قریب، زیادہ حقدار، یہاں تینوں  معنی درست ہیں اور اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ دنیا اور دین کے تمام اُمور میں  نبیٔ  کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا حکم مسلمانوں  پر نافذ اور آپ کی اطاعت واجب ہے اورآپ کے حکم کے مقابلے میں نفس کی خواہش کو ترک کر دینا واجب ہے،دوسرا معنی یہ ہے کہ نبیٔ  اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مومنین پر اُن کی جانوں  سے زیادہ نرمی، رحمت اور لطف و کرم فرماتے ہیں اورانہیں سب سے زیادہ نفع پہنچانے والے ہیں ۔

   اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ الله تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’سچی کامل مالکیت وہ ہے کہ جان وجسم سب کو محیط اورجن وبشر سب کوشامل ہے، یعنی اَوْلٰی بِالتَّصَرُّفْ (تصرف کرنے کا ایسا مالک) ہونا کہ اس کے حضور کسی کو اپنی جان کابھی اصلاً اختیارنہ ہو۔ یہ مالکیت ِحقہ، صادقہ، محیط، شاملہ، تامہ، کاملہ حضور پُرنورمَالِکُ النَّاس صَلَّی الله تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو بخلافت ِکبرٰیٔ حضرت کبریا عَزَّوَعَلَا تمام جہاں  پرحاصل ہے۔ قَالَ اللہ تَعَالٰی:’’اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ“(نبی زیادہ والی ومالک ومختارہے،تمام اہلِ ایمان کاخود ان کی جانوں سے)قَالَ اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی(اور الله تَبَارَک وَتَعَالٰی نے فرمایا:)’’وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ؕوَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا‘‘ترجمۂ کنز العرفان: نہیں  پہنچتا کسی مسلمان مرد نہ کسی مسلمان عورت کو جب حکم کردیں الله اور اس کے رسول کسی بات کا کہ انہیں  کچھ اختیاررہے اپنی جانوں  کا، اور جوحکم نہ مانے الله ورسول کاتو وہ صریح گمراہ ہوا۔ رسولُ الله صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : ’’اَنَا اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ‘‘ میں  زیادہ والی و مالک ومختارہوں ، تمام اہلِ ایمان کاخود ان کی جانوں  سے۔( فتاویٰ رضویہ، رسالہ: النور والضیاء فی احکام بعض الاسماء، ۲۴ / ۷۰۳-۷۰۴)"

   مزید تفصیل کیلئے صراط الجنان ج07،ص 564 تا 567 کا مطالعہ فرمائیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم