Imam Hussain aur Ibn e Umar ke Ek Sath Khelne ki Haqiqat

امام حسین اور حضرت عبد اللہ بن عمر  کے ایک ساتھ کھیلنے والا واقعہ درست ہے؟

مجیب:مفتی   محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-8999

تاریخ اجراء:18محرم   الحرام 6144ھ25جولائی 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے  میں کہ میں نے ایک خطیب سے یہ واقعہ سنا ہےکہ امام حسین رضی اللہ عنہ اورحضرت ابن عمررضی اللہ عنہما بچپن میں کھیل رہےتھےاوران کا آپس میں جھگڑا ہوا،توامام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم تو ہمارےغلام کےبیٹے ہو،یہ بات حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو بری لگی اور انہوں نے اپنے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس کا ذکرکیا،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جاؤ امام حسین رضی اللہ عنہ سےلکھوا لاؤ،ابن عمر رضی اللہ عنہ امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس گئےاوران سےکہاکہ یہ بات لکھ کردیں،امام حسین رضی اللہ عنہ نے لکھ دیا کہ عمر ہمارا غلام ہے، یوں ابن عمر ہمارے غلام کا بیٹا ہے،ابن عمر رضی اللہ عنہ جب یہ تحریر لے کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے،تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میری نجات کے لیے یہ تحریر کافی ہے،کیا یہ واقعہ درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بیان کردہ واقعہ  کافی تلاش کے باوجود کسی معتبر کتاب سے  نہیں ملا اور  نہ ہی کسی مستند ومعتبر مصنف  نے اس کو ذکر کیا ہے۔

واقعہ کے متعلق تفصیلی کلام:

   بنیادی طور پر یہ بات سمجھ لیں کہ حضرت ابن عمر اور امام حسین رضی اللہ عنہما  کے متعلق کتب   احادیث، شروحات حدیث، کتب سیرت اور تاریخ کا مطالعہ کرنے  سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ  ان دونوں حضرات کے درمیان عمر کے اعتبار سے کافی فرق ہے، جیساکہ صحیح روایات   سے یہ بات ثابت ہے کہ  امام حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش  چار ہجری میں ہوئی اور  حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے آٹھ ہجری میں پہلی جنگ یعنی فتح  مکہ میں شرکت  کی اور فتح  مکہ  میں شرکت کے وقت معروف تابعی امام مجاہد  رضی اللہ عنہ کی تصریح  کے مطابق آپ   کی عمر مبارک بیس سال    تھی اور  فتح  مکہ آٹھ ہجر ی میں ہوا، تو ظاہر ہےکہ جب  آٹھ ہجری میں امام حسین رضی اللہ عنہ چار سال کے تھے، تو یہ ان کی  کھیلنے کی عمر ہوگی اور اس وقت عبد اللہ بن رضی اللہ عنہ بیس  سال کےجوان تھے، اسی وجہ سے تو فتح  مکہ میں شرکت کی اجازت ملی، کیونکہ غزہ بدر اور غزوہ احد میں  جب حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے  جہاد میں  جانے کی اجازت مانگی، تو اس وقت نبی  پاک  علیہ السلام نے  کم عمر ہونے کی وجہ سے ان کو جہا د میں شرکت کی اجازت نہ دی  کہ غزوہ بدر کے موقع پر آپ کی عمر تیرہ سال اور غزوہ احد میں چودہ سال تھی، پھر جب   فتح  مکہ  کے موقع  پر آپ جہاد کی  عمر پر پورے اترے،تو آپ کو جہاد میں جانے کی  اجازت  دی گئی۔

   لہذا عمروں کی اِن تفصیلات کے مطابق یہ کہنا کہ"امام حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بچپن میں کھیل رہے تھے" یہ کیسے درست ہوسکتا ہے؟

   امام حسين  رضی اللہ عنہ کی پیدائش   4 ہجری میں ہوئی،جیساکہ  معجم الصحابۃ للبغوی ،المعجم الکبیر للطبرانی، اور مجمع الزوائد میں ہے: واللفظ للاول:’’ولد الحسين بن علي لخمس من شعبان سنة أربع من الهجرة“ ترجمہ : امام حسین بن علی رضی اللہ عنہ پانچ شعبان المعظم  چار ہجری کو پیداہوئے۔(معجم الصحابہ للبغوی، جلد2،صفحہ14،مطبوعہ کویت)

   فتح مکہ کے موقع پر حضرت عبد اللہ بن عمر نے جنگ میں شرکت کی، جبکہ وہ 20 سال کے تھے، جیساکہ امام ابن عبد البررحمۃ اللہ علیہ "الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب" میں معروف تابعی امام مجاہدرضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’عن مجاهد، قال: ادرك ابن عمر الفتح، وهو ابن عشرين سنة  يعني فتح مكة“ ترجمہ: حضرت مجاہد  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ   ابن عمر رضی اللہ عنہ فتح  مکہ   میں موجود تھے اور اس وقت آپ کی عمر بیس سال تھی۔(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،جلد3،صفحہ950، مطبوعہ دار الجیل،بیروت)

   اور فتح  مکہ آٹھ ہجری میں  ہوا، جیساکہ صحیح بخاری کی حدیث مبارک میں ہے :’’ أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم  خرج في رمضان من المدينة ومعه عشرة آلاف، وذلك على رأس ثمان سنين ونصف من مقدمه المدينة“ترجمہ: نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں مدینہ  سے  روانہ ہوئے اور آپ کے ساتھ دس ہزار صحابہ کرام تھے  اور یہ (یعنی فتح  مکہ کا واقعہ) حضور علیہ السلام  کے مدینہ میں تشریف لانے کے بعد ہجرت کے آٹھویں سال ہوا۔(صحیح بخاری، جلد5،صفحہ146، رقم الحدیث :4276،مطبوعہ دار طوق النجاۃ)

   اِن تین جزئیات سے معلوم ہوا کہ جب فتح  مکہ ہوا، اُس وقت امام حسین رضی اللہ عنہ چار سال  کے تھے، کیونکہ امام حسین چار ہجری میں پیدا ہوئے اور فتح  مکہ 8 ہجری میں ہوا۔

   غزوہ  بدر کے موقع پر حضرت عبد اللہ بن عمر  کی عمرشریف   تیرہ سال  اور غزوہِ احد میں چودہ سال تھی،  اس لیے آپ کو جنگ میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی،جیساکہ علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:855ھ /1451ء) لکھتےہیں:’’أنه عرض يوم بدر وهو ابن ثلاث عشرة سنة فاستصغر، وعرض يوم أحد وهو ابن أربع عشرة سنة فاستصغر“ ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر  غزوہِ بدر کے دن  تیرہ سال کے تھے  ، تو آپ کو  (جہاد کے حوالے سے ) کم عمر قرار دیا گیا، (غزوہ)احد کے موقع پر اجازت مانگی اور آپ اس وقت  چودہ سال کے تھے تو اس وقت بھی  آپ کو(جہاد کے حوالے سے) کم عمر قرار دیا گیا۔(عمدۃ القاری، جلد17، صفحہ82، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی، بیروت)

   اجمل العلماء مفتی محمد اجمل قادِری سَنبَھلی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات:1383ھ/1963ء) سے "فتاوی اجملیہ" میں بعینہٖ اِسی واقعہ کے متعلق سوال ہواتواس کےجواب  میں آپ نے فرمایا:”یہ واقعہ کسی عربی کی مستندومعتبر کتاب میں میری نظرسےنہیں گزرا۔“(فتاوی اجملیہ ،جلد 4،صفحہ 629 ،مطبوعہ شبیر برادرز، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم