Hazrat Imam Hasan Aur Hazrat Ameer e Muawiyah رضی اللہ عنہما Ki Khilafat

حضرت امام حسن اور حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہما کی خلافت کی تفصیل

مجیب: ابو حذیفہ محمد شفیق عطاری

فتوی  نمبر: WAT-1437

تاریخ  اجراء:07شعبان المعظم1444 ھ/28فروری2023ء

دارالافتاء  اہلسنت

(دعوت  اسلامی)

سوال

   بعض لوگ خلفاءِ راشدین میں حضرت سیدُنا حسن رضی اللہ عنہ کو بھی شامل کرتے ہیں کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ میری خلافت 30 سال ہی میں مکمل ہو گی اور یہ 30 سال تبھی مکمل ہوتے ہیں ، جب حضرت سیدُنا حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت کو تسلیم کیا جائے، تو کیا حضرت سیدُنا حسن رضی اللہ عنہ بھی خلفاءِ راشدین میں شامل ہیں ؟ نیز کیا حضرت سیدُنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ بھی خلیفہ رہے ہیں اور اگر رہے ہیں ، تو ان کی خلافت کس حدیث سے ثابت ہے ؟ کیونکہ اس طرح خلافت کے زمانے کے حساب میں فرق آئے گا ؟ نیز بعض لوگ حضرت سیدُنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کو مانتے ہیں لیکن ان کا نام لے کر تعریف کرنا پسند نہیں کرتے یعنی دل سے نہیں مانتے، ان کا کیا حکم ہے ؟

بِسْمِ  اللہِ  الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ  بِعَوْنِ  الْمَلِکِ  الْوَھَّابِ  اَللّٰھُمَّ  ھِدَایَۃَ  الْحَقِّ  وَالصَّوَابِ

      حضرت سیدُنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت حدیث سے ثابت ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خلافت کا زمانہ تیس سال بیان فرمایا اور یہ تیس سال حضرت سیدُنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت ہی پر پورے ہوتے ہیں ، لہٰذا حضرت سیدُنا امام حسن رضی اللہ عنہ خلفاءِ راشدین میں شامل ہیں ۔ خلافتِ راشدہ تيس سال تک رہی ، جو حديث پاک میں ہے اور یہ عرصہ حضرت سیدُنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اس طرح مکمل ہو گيا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت اميرِ معاويہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر کے خلافت ان کے سپرد کر دی ، تو یوں خلافتِ راشدہ تیس سال پر ختم ہوئی اور اس کے بعد اسلام کے پہلے سلطان و بادشاہ حضرت امير معاويہ رضی اللہ عنہ ہوئے اور آپ کی سلطنت و بادشاہت بھی حدیث سے ثابت ہے ۔ نیز حضرت سیدُنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کو ماننے کے باوجود ان کا نام و تعریف پسند نہ کرنا بد عقیدہ اور دل کے مریض کی نشانی ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ سے سوءِ عقیدت یعنی بد عقیدگی رکھنا بدمذہبی و گمراہی و جہنم کی حقداری ہے،کیونکہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی رسول ہیں اور صحابۂ کِرام رضی اللہ عنھم کی عظَمت  قرآن و حدیث اور امتِ مسلمہ کے اجماع سے ثابت ہے ۔صحابۂ کِرام رضی اللہ عنھم کے بارے میں اہلِ سنت کا عقیدہ بہت واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام صحابہ بشُمول  خلفاءِ اربعہ اور حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہم سب اہلِ خیر و صلاح ، عادل ، متقی اور جنّتی ہیں ، ان کا جب بھی ذکر کیا جائے، تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے ، کیونکہ اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے تمام صحابہ سے جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تمام صحابہ کا ذکر بھلائی و اچھائی ہی کے ساتھ کرنے کا حکم ارشاد فرمایا اور ان کا ذکر برائی سے کرنے اور ان پر طعن و اعتراض کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ لہٰذا کسی بھی صحابی کی بےادبی و توہین اور ان سے بُغض و بُرا گمان رکھنا فسق و گمراہی اور جہنم کی حقداری کا سبب ہے اور ایسا شخص اہلِ سنت سے خارج ہے اور ہر صحیح العقیدہ مسلمان کو اس عقیدے پر مکمل یقین رکھنا ضروری ہے ۔ پھر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تو ان صحابہ میں سے ہیں کہ جن کے لیے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود نام لے کر دعائیں فرمائی ہیں ۔

نیچے ان احکامات کے دلائل پیش کیے جا رہے ہیں :

   قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے : ﴿وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ﴾ ترجمۂ کنز الایمان : اور وہ جو اُن کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ اے رب ہمارے بےشک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے ۔(پارہ28 ، سورۃ الحشر ، آیت10)

   اس آیت کے تحت سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر خزائن العرفان میں فرماتے ہیں : ”جس کے دل میں کسی صحابی کی طرف سے بغض یا کدورت ہو اور وہ ان کے لیے دعائے رحمت و استغفار نہ کرے ، وہ مومنین کی اقسام سے خارج ہے ، کیونکہ یہاں مومنین کی تین قسمیں فرمائی گئیں ۔ مہاجرین ، انصار اور ان کے بعد والے ، جو ان کے تابع ہوں اور ان کی طرف سے دل میں کوئی کدورت نہ رکھیں اور ان کے لیے دعائے مغفرت کریں ، تو جو صحابہ سے کدورت رکھے ، رافضی ہو یا خارجی ، وہ مسلمانوں کی ان تینوں قسموں سے خارج ہے ۔ حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا : کہ لوگوں کو حکم تو یہ دیا گیا کہ صحابہ کے لیے استغفار کریں اور کرتے یہ ہیں کہ انہیں گالیاں دیتے ہیں ۔(تفسیر خزائن العرفان ، پارہ28 ، سورۃ الحشر ، آیت10)

   خلافت کی مدت تیس سال ہونے کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”الخلافۃ فی امتی ثلاثون سنۃ ثم  ملک بعد ذلک“ترجمہ:میری امت میں خلافت تیس سال تک   ہو گی اور اس کے بعد بادشاہت ہو گی۔(جامع ترمذی، ج4،ص73،رقم الحدیث2226،دار الغرب الاسلامی ، بیروت)

   خلافت اور سلطنت کے متعلق حدیثِ پاک میں ہے : ”عن النعمان ابن بشير عن حذيفة قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم : ”تكون النبوة فيكم ما شاء الله ان تكون ثم يرفعها الله تعالى، ثم تكون خلافة على منهاج النبوة ما شاء الله ان تكون ثم يرفعها الله تعالى، ثم تكون ملكا عاضّا، فيكون ما شاء الله ان يكون ثم يرفعها الله تعالى، ثم تكون ملكا جبْرية فيكون ما شاء الله ان يكون ثم يرفعها الله تعالى، ثم تكون خلافة على منهاج نبوة “، ثم سكت “ ترجمہ : حضرت نعمان ابن بشیر رضی اللہ عنہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”تم میں نبوت رہے گی جب تک اللہ اس کا رہنا چاہے ، پھر اسے اللہ اٹھالے گا ۔ پھر نبوت کے راستہ پر خلافت ہوگی ، جب تک اللہ اس کا ہونا چاہے، پھر اسے بھی اللہ اٹھالے گا ۔ پھر کنکھنا ملک ہوگا ، پھر وہ رہے گا جب تک اللہ اس کا رہنا چاہے ، پھر اسے اللہ اٹھا لے گا ۔ پھر جبریہ سلطنت ہوگی، وہ بھی رہے گی جب تک اللہ اس کا رہنا چاہے، پھر اسے اللہ اٹھالے گا۔ پھر خلافت نبوت کی شہ راہ پر ہو گی۔“ پھر حُضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم خاموش ہو گئے۔(مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الرقاق ، باب التحذیر من الفتن ، الفصل الثالث ، ج9 ، ص248 ، مطبوعہ ملتان)

   اس حدیث کی شرح میں مراۃ المناجیح میں ہے : ”یہاں نبوت سے مراد حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ظہور کا زمانہ ہے جب لوگ صحابی بنتے تھے،یہ زمانہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات سے ختم ہوگیا اور پھر خلافت کا زمانہ آگیا اور حضور کی سلطنت کا زمانہ تا ابد ہے وہ کبھی ختم نہ ہو گا ۔۔۔ منہاج سے مراد ظاہر و باطن فیوض ہیں یعنی اس خلافت میں نبوت کے ظاہری وباطنی فیوض ہوں گی ۔ یہ خلافت کل تیس (30) سال رہے گی جیساکہ دوسری حدیث شریف میں ہے ۔ چنانچہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے چھ ماہ خلافت کرکے اس لیے امیر معاویہ کے حق میں دست برداری فرمائی ان چھ ماہ پر تیس سال پورے ہوگئے۔اس کے بعد اسلام میں سلطنت کی بنیاد پڑی ، امیرِ مُعاویہ پہلے سلطانِ اسلام ہوئے ۔ کھٹکنے ملک کے معنی ابھی پہلے عرض کردیئے گئے کہ اس زمانہ میں خلافتِ راشدہ جیسی نورانیت نہ ہوگی نہ اس زمانہ کا سا امن و امان ہوگا،اس زمانہ میں بعض لوگ بعض کو کاٹ کھائیں گے،یہ مطلب نہیں کہ وہ سلطنت لوگوں کو کھاٹ کھائے گی یا سلطان ظالم ہوں گے،ظلم والی بادشاہت کا ذکر تو آگے آرہا ہے۔ ملخصا “(مراۃ المناجیح ، ج7 ، ص185۔186 ، ضیاء القراٰن پبلی کیشنز ، لاھور)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ حضرت سیدُنا حسن رضی اللہ عنہ کے خلفاءِ راشدین میں شامل ہونے اور حضرت سیدُنا امیرِ معاویہ  رضی اللہ عنہ کا اسلام کے پہلے سلطان ہونے کے متعلق فرماتے ہیں : ”نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد خلیفۂ برحق و امامِ مطلق حضرت سیّدنا ابو بکر صدیق، پھر حضرت عمرِ فاروق، پھر حضرت عثمان غنی، پھر حضرت مولیٰ علی ، پھر چھ مہینے کے لیے حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہوئے، اِن حضرات کو خلفائے راشدین اور اِن کی خلافت کو خلافتِ راشدہ کہتے ہیں کہ انہوں نے حُضور (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کی سچی نیابت کا پورا حق ادا فرمایا ۔۔۔ منھاجِ نبوت پر خلافتِ حقہ راشدہ تیس سال رہی کہ سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے چھ مہینے پر ختم ہوگئی۔ پھر امیر المؤمنین عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافتِ راشدہ ہوئی اور آخر زمانہ میں حضرت سیّدنا امام مَہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں گے۔ امیرِ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوّل ملوکِ اسلام (یعنی اسلام کے پہلے سلطان و بادشاہ) ہیں ، اسی کی طرف توراتِ مقدّس میں اشارہ ہے کہ: ”مَوْلِدُہٗ بِمَکَّۃَ وَمُھَاجَرُہٗ بِطَیْبَۃَ وَمُلْکُہٗ بِالشَّامِ“ وہ نبی آخر الزماں (صلی اللہ تعالیٰ علیہ  وسلم) مکہ میں پیدا ہوگا اور مدینہ کو ہجرت فرمائے گا اور اس کی سلطنت شام میں ہوگی۔ تو امیرِ معاویہ کی بادشاہی اگرچہ سلطنت ہے، مگر کس کی! محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ  وسلم کی سلطنت ہے۔ سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک فوجِ جرّار جاں نثار کے ساتھ عین میدان میں بالقصد و بالاختیار ہتھیار رکھ دیے اور خلافت امیرِ معاویہ کو سپرد کر دی اور ان کے ہاتھ پر بیعت فرما لی اور اس صُلح کو حضور ِاقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ  وسلم نے پسند فرمایا اور اس کی بشارت دی کہ امام حسن کی نسبت فرمایا: ”إِنَّ ابْنِي ھٰذَا سَیِّدٌ لَعَلَّ اللہَ أَنْ یُّصْلِحَ بِہِ بَیْنَ فِئَتَیْنِ عَظِیْمَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ“ میرا یہ بیٹا سیّد ہے، میں امید فرماتا ہوں کہ اللہ عزوجل اس کے باعث دو بڑے گروہِ اسلام میں صلح کرا دے ۔ تو امیرِ معاویہ پر معاذ اﷲ فِسق وغیرہ کا طعن کرنے والا حقیقۃً حضرت امام حسن مجتبیٰ، بلکہ حضور سیّدِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ  وسلم، بلکہ حضرت عزّت جلّ وعلا پر طعن کرتا ہے۔ ملخصا “(بھار شریعت ، ج1 ، حصہ1 ، ص241۔259 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی)

   سیدی اعلٰی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : ”حضرت امیر معاویہ تو اول ملوکِ اسلام اور سلطنتِ محمدیہ کے پہلے بادشاہ ہیں ۔“ (فتاوی رضویہ ، رسالہ اعتقاد الاحباب ، ج29 ، ص357، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت امیرِ مُعاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعا فرمائی ۔ چنانچہ سنن  ترمذی ، مسند امام احمد اور التاریخ الکبیر للبخاری میں حدیثِ صحیح منقول ہے (والنظم للبخاری) :”قال ابو مسھرحدثنا سعید بن عبد العزیز عن ربیعۃ بن یزید عن ابن ابی عمیرۃ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم  اللھم اجعلہ ھادیا مھدیا واھدہ واھدبہ“ ترجمہ:حضرت سیدنا ابن ابو عمیرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعا فرمائی :اے اللہ ! اسے ہادی ومہدی بنا ، اسے ہدایت دے اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے ۔              (التاریخ الکبیر ،عبد الرحمن بن ابی عمیرہ ،ج5 ، ص240 ، دائرۃ المعارف العثمانیہ ،مطبوعہ حیدر آباد دکن)

   جامع ترمذی میں ہے : ”قال عمیر : لا تذکروا معاویۃ الا بخیر ، فانی سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول : اللهم اهد بہ “ ترجمہ:حضرت عمیر بن سعد نے فرمایا کہ امیر معاویہ کا ذکرِ خیر ہی کیا کرو کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے لئے یہ دعا کرتے سنا ہے کہ اے اللہ ! معاویہ کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دے۔ (جامع الترمذی ، باب مناقب معاویہ ، ج2 ، ص704 ، مطبوعہ لاھور)

   تمام صحابہ کا ذکر بھلائی کے ساتھ کرنا فرض اور کسی صحابی سے بد عقیدگی رکھنا گمراہی ہے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اللہَ اللہَ في أصحابي، لا تتخذوهم غرضا بعدي، فمن أحبهم فبحبي أحبهم ، ومن أبغضهم فببغضي أبغضهم، ومن آذاهم فقد آذاني ومن آذاني فقد آذى اللہ ، ومن آذى اللہ يوشك أن يأخذہ “ ترجمہ : میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو ، اللہ کا خوف کرو ، میرے بعد انہیں (اعتراضات کا) نشانہ نہ بنانا ۔ جس نے انہیں محبوب رکھا ، تو میری محبت کی وجہ سے محبوب رکھا اور جس نے ان سے بغض رکھا ، تو مجھ سے میرے بغض رکھنے کی وجہ سے بغض رکھا اور جس نے انہیں تکلیف دی ، اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی ، تو بے شک اس نے اللہ پاک کو تکلیف دی اور جس نے اللہ پاک کو تکلیف دی ، قریب ہے کہ اللہ پاک اُسے (اپنے عذاب میں) گرفتار فرمائے ۔(جامع الترمذی ، باب فی من سَبّ اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ج2 ، ص706 ، مطبوعہ لاھور)

   حضرت سیدُنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :”لا تذکروا مساوی اصحابی فتختلف قلوبکم علیھم واذکروا محاسن اصحابی حتی   تاتلف   قلو      بکم علیھم “ ترجمہ:میرے صحابہ کا تذکرہ برائی کے ساتھ مت کرو کہ تمہارے دل ان کے خلاف ہوجائیں ،میرے صحابہ کی اچھائیاں بیان کرو ،یہاں تک کہ تمہارے دل ان کے لیے نرم ہوجائیں ۔(کنز العمال ،کتاب الفضائل ،الباب الثالث ،الفصل الاول ،جزء11،صفحہ247، لاھور)

   حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا کہنے والے شخص کے متعلق سیدی اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمدرضاخان رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : ”حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا کسی صحابی کو برا کہنا رِفض (یعنی بدمذہبی) ہے ۔“(فتاوٰی رضویہ ، ج24 ، ص508 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

   شارحِ بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”باتفاقِ اہلِ سنت حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ صحابی ہیں ، انہیں برا کہنے والا اہلِ سنت سے خارج ، گمراہ ، بد دین ہے ۔“                                      (فتاوٰی شارحِ بخاری ، ج2 ، ص32 ، مطبوعہ مکتبہ برکات المدینہ، کراچی)

   سیدی اعلٰی حضرت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ امام حسن اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان صلح والی حدیثِ بخاری نقل کرکے فرماتے ہیں : ”وبہ ظھر ان الطعن علی الامیر معاویۃ طعن علی الامام المجتبی بل علی جدہ الکریم صلی اللہ علیہ وسلم،  بل علی ربہ عزوجل “ ترجمہ:اسی سے ظاہر ہوگیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر طعن کرنا درحقیقت امام مجتبیٰ پر طعن کرنا ہے، بلکہ یہ ان کے جد کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن کرنا ہے، بلکہ یہ تو اللہ عزوجل پر طعن کرنا ہے ، کیونکہ مسلمانوں کی باگ ڈور کسی غلط آدمی کے ہاتھ میں دینا اسلام اور مسلمین کے ساتھ خیانت ہے اور اگر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غلط تھے، جیساکہ طعن کرنے والے کہہ رہے ہیں، تو پھر اس خیانت کے مرتکب معاذ اللہ امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ ٹھہریں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی اس خیانت پرر ضا لازم آئے گی اور یہ وہ ہستی ہے جس کی شان میں﴿ وما ینطق عن الھوی () ان ھو الا وحی یوحی﴾ وارد ہے ۔یہ جملے اس شخص کو فائدہ دیں گے جس کے لیے اللہ نے ہدایت کا ارادہ فرمالیا ۔“(المستند المعتمد مع المعتقد المنتقد،صفحہ192-193،برکاتی پبلشر ،کراچی)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :”تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اہلِ خیر و صلاح ہیں اور عادل، ان کا جب ذکر کیا جائے ،تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔ کسی صحابی کے ساتھ سوءِ عقیدت بدمذہبی و گمراہی و استحقاقِ جہنم ہے کہ وہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ  وسلم کے ساتھ بُغض ہے۔ ایسا شخص رافضی ہے، اگرچہ چاروں خلفا ءکو مانے اور اپنے آپ کو سُنّی کہے۔ مثلاً :حضرت امیرِ معاویہ اور اُن کے والدِ ماجد حضرت ابو سفیان اور والدہ ماجدہ حضرت ہِند ۔۔۔ کوئی ولی کتنے ہی بڑے مرتبہ کا ہو ، کسی صحابی کے رتبہ کو نہیں پہنچتا۔صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے باہم جو واقعات ہوئے،ان میں پڑنا حرام، حرام، سخت حرام ہے، مسلمانوں کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ سب حضرات آقائے دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ  وسلم کے جاں نثار اور سچے غلام ہیں ۔۔۔ صحابہ کر ام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم انبیاء نہ تھے، فرشتہ نہ تھے کہ معصوم ہوں ، ان میں بعض کے لیے لغزشیں ہوئیں،مگر ان کی کسی بات پر گرفت اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کے خلاف ہے۔اﷲعزوجل نے سورۂ حدید میں جہاں صحابہ کی دو قِسمیں فرمائیں، مومنین قبلِ فتحِ مکہ اور بعدِ فتحِ مکہ اور اُن کو اِن پر تفضیل دی اور فرما دیا:﴿ وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی﴾ سب سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ فرما لیا۔ ساتھ ہی ارشاد فرما دیا:﴿ وَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴾ اﷲ خوب جانتا ہے، جو کچھ تم کرو گے۔ تو جب اُس نے اُن کے تمام اعمال جان کر حکم فرما دیا کہ ان سب سے ہم جنتِ بے عذاب و کرامت و ثواب کا وعدہ فرماچکے، تو دوسرے کو کیا حق رہا کہ اُن کی کسی بات پر طعن کرے؟کیا طعن کرنے والا اﷲ(عزوجل) سے جدا اپنی مستقل حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔ ملخصا “(بھار شریعت ، حصہ 1، ج1 ، ص252-255،مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم