مجیب: مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان
عطاری
فتوی نمبر: Grw-345
تاریخ اجراء: 11 رمضان المبارک1443ھ/13اپریل 2022 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا
فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ حضرت سیدہ
خاتو ن جنت بی بی فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالی
عنہا کا جنازہ کس نے پڑھایا ؟نیز
بخاری شریف کی ایک روایت میں آتا ہے
کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے رات کو ہی حضرت فاطمہ
رضی اللہ عنہا کو دفن کر دیا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو اطلاع نہ کی۔
اس روایت کا صحیح مطلب کیا
ہے ؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حضرت سیدہ خاتون جنت بی بی فاطمۃ
الزہراء رضی اللہ تعالی عنہا کا جنازہ
کس نے پڑھایا ،اس بارے میں روایات مختلف ہیں،ایک
روایت کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اور ایک روایت کے مطابق حضرت
عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے پڑھایا۔اورصحیح یہ
ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہا کا
جنازہ، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ
تعالی عنہ نے
پڑھایا،جس کا ذکر کثیر روایات میں موجود ہے۔
بخاری
شریف کی جس روایت کی طرف سوال میں اشارہ ہے، اس
روایت کے الفا ظ یہ ہیں :’’ دفنها زوجها
علی ليلا ولم يؤذن بها أبا بكر ‘‘یعنی : حضرت فاطمہ رضی
اللہ تعالی عنہا کو ان کے شوہر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رات کو
ہی دفن کر دیا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
کو ان کی وفات کی اطلاع نہ دی۔(صحیح البخاری ، کتاب المغازی، باب غزوۃ خیبر، جلد05،صفحہ139
، بیروت)
اس
کی شرح میں شارحینِ حدیث نے اس بات کی صراحت
کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گمان تھا کہ اس معاملے کی اطلاع حضرت
ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو ہو گئی ہو گی،اس
لیے انہوں نے بذاتِ خود اطلاع پہنچانا ضروری نہیں سمجھا، لہذا ا
س روایت سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا ، کہ حضرت ابو بکر
صدیق رضی اللہ عنہ کو اطلاع ہی نہ ہوئی اور وہ جنازے
میں شریک ہی نہ ہوئے۔چنانچہ شارح بخاری علامہ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں اورعلامہ احمد بن
محمد قسطلانی ارشاد الساری میں ان الفاظ کے تحت فرماتے
ہیں(واللفظ للاول) :’’ ولعله لم يعلم أبا بكر بموتها لأنه ظن
أن ذلك لا يخفى عنه وليس في الخبر ما يدل على أن أبا بكر لم يعلم بموتها ولا صلى
عليها ‘‘
یعنی : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر کو حضرت
فاطمہ کی وفات کی خبر اس لیے نہیں پہنچائی کہ وہ گمان کرتے تھے کہ یہ
معاملہ حضرت ابو بکر سے پوشیدہ نہیں رہے گا ، اور اس روایت
میں ایسی کوئی چیز
نہیں جس سے اس بات پر دلالت ہوتی ہو کہ حضرت ابو بکر کو حضرت
فاطمہ کی وفات کا علم ہی نہ ہوا تھا اور آپ نے ان کا جنازہ
ہی نہ پڑھا تھا ۔(فتح الباری شرح
صحیح بخاری ، جلد 07، صفحہ 494،دار المعرفۃ ، بیروت)
نیز
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو غسل دینے والوں میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ
تعالی عنہ کی زوجہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ
تعالی عنہا بھی شامل تھیں، شاید اسی وجہ سے حضرت
علی نے یہ گمان کیا کہ
حضرت ابو بکر صدیق کو وفات کی خبر مل چکی ہو گی، لہذا
میرا بذاتِ خود انہیں خبر دینا ضروری نہیں ۔
چنانچہ مصنف عبد الرزاق و سنن کبری للبیہقی و مستدرک للحاکم
میں ہے (واللفظ للاول):’’عن أم جعفر بنت
محمد، عن جدتها أسماء بنت عميس قالت: أوصت فاطمة إذا ماتت أن لا يغسلها إلا أنا
وعلی قالت: «فغسلتها أنا و علی»‘‘ترجمہ
:حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے ،وہ
فرماتی ہیں کہ : سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے
وصیت کی تھی کہ جب ان کا انتقال ہو جائے،تو میں اور حضرت علی انہیں
غسل دیں، پس میں نےاور حضرت
علی نے انہیں غسل دیا۔(مصنف عبد الرزاق، جلد 03، صفحہ 409، مطبوعہ بیروت)
مختلف روایات
کے حوالے سے البدایہ والنہایہ میں ہے : ’’
وكان الذي صلى عليها زوجها علی، وقيل عمها العباس، وقيل أبوبكر الصديق ‘‘یعنی
:حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی نماز جنازہ حضرت علی
نے پڑھائی اور کہا گیا ہے کہ
ان کے چچا حضرت عباس نے پڑھائی اور کہا گیا ہے کہ حضرت ابو بکر
صدیق نے پڑھائی۔(البدایہ والنھایہ
، جلد 6، صفحہ367،دار احیاء التراث، بیروت)
متعدد
روایات میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ
کا جنازے میں حاضر ہونا اورحضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ
کا انہیں جنازہ پڑھانے کے لیے آگے کرنا،اور ان کا جنازہ پڑھانا
مذکور ہے۔چنانچہ امام بیہقی السنن
الکبری میں اپنی سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں :’’ عن
الشعبی: أن فاطمة رضی اللہ عنها لما ماتت دفنها علی رضی
اللہ عنه ليلا، وأخذ بضبعی أبي بكر الصديق رضی اللہ عنه فقدمه يعنی
فی الصلاة عليها ‘‘یعنی : امام شعبی سے
مروی ہے کہ جب حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا
وصال ہوا تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے انھیں رات کو
دفن کیا ، اور نماز جنازہ پڑھانے کے لیے حضرت ابو بکر صدیق
رضی اللہ تعالی عنہ کو پکڑ کر آگے کیا ۔(السنن الکبری ،جلد 04، صفحہ 46، دار الکتب العلمیہ
، بیروت)
امام
علی المتقی الہندی کنز العمال میں نقل کرتے ہیں :’’ عن
جعفر بن محمد عن أبيه قال: ماتت فاطمة بنت النبی صلى اللہ عليه وسلم فجاء
أبو بكر وعمر ليصلوا فقال أبو بكر لعلی بن أبي طالب: تقدم، فقال: ما كنت لأتقدم وأنت
خليفة رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم، فتقدم أبو بكر فصلى عليها ‘‘یعنی:امام
جعفر رضی اللہ تعالی عنہ اپنے
والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا: حضرت فاطمہ بنت رسول
اللہ کا وصال ہوا ،تو حضرت ابو بکر و عمر
جنازہ پڑھنے آئے، تو حضرت ابو بکر نے حضرت علی سے کہا :
آگے بڑھیں اور جنازہ پڑھائیں، تو حضرت علی نے کہا:
آپ رسول اللہ کے خلیفہ موجود ہیں ، میں آگے
نہیں بڑھوں گا ،تو حضرت ابو بکر آگے بڑھے اور جنازہ
پڑھایا۔(کنز العمال جلد 12، صفحہ
515،مؤسسۃ الرسالہ ، بیروت)
الریاض النضرۃ میں ہے :’’ عن
جعفر بن محمد عن أبيه عن جده علی بن الحسين قال: ماتت فاطمة بين المغرب
والعشاء، فحضرها أبو بكر وعمر وعثمان والزبير وعبد الرحمن بن عوف،فلما وضعت ليصلى
عليها قال علی رضی اللہ عنه: تقدم يا أبابكر قال: وأنت شاهد يا أبا
الحسن؟ قال: نعم تقدم فواللہ لا يصلی عليها غيرك، فصلى عليها أبو بكر رضی
اللہ عنهم أجمعين ودفنت ليلًا. خرجه البصری وخرجه ابن السمان في الموافقة ‘‘ یعنی
: امام جعفر اپنے والد سے وہ ان کے داداحضرت علی بن حسین رضی
اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ،انہوں نے فرمایا : مغرب و عشا کے
درمیان حضرت فاطمہ کی وفات
ہوئی، تو حضرت ابو بکر و عمر و عثمان و زبیر و عبد الرحمن بن عوف
رضی اللہ عنہم اجمعین آئے جب جنازہ نماز پڑھنے کے لیے
رکھا گیا، تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نےکہا: اے ابو
بکر آپ آگے بڑھیں، تو صدیق اکبر نے کہا آپ موجود
ہیں، آپ کے ہوتے ہوئے میں آگے بڑھوں ؟ تو حضرت
علی نے کہا : جی ہاں اللہ کی قسم حضرت فاطمہ کا جنازہ آپ
کے علاوہ کوئی اور نہیں پڑھائے گا ، تو حضرت ابو بکر صدیق نے
نماز جنازہ پڑھائی اورحضرت فاطمہ کو رات میں ہی دفن کیا
گیا ، اسے امام بصری نے اور ابن سمان نے موافقہ میں نقل
کیا ۔(الریاض النضرہ،جلد 01، صفحہ
176،دارالکتب العلمیہ، بیروت)
طبقات
ابن سعد میں ہے:’’ عن إبراهيم قال: صلى أبو بكر الصديق
على فاطمة بنت رسول اللہ صلى اللہ عليه
وسلم فكبر عليها أربعا ‘‘ یعنی: حضرت ابراہیم
نخعی سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق
رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وعلیہما وسلم کی نماز جنازہ پڑھائی ۔
اسی
میں حضرت امام شعبی علیہ الرحمۃ سے منقول ہے :’’ عن
الشعبی قال: صلى عليها أبو بكر رضی اللہ عنه وعنها ‘‘ یعنی
: حضرت ابو بکررضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ
تعالی عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی ۔(طبقات ابن سعد ، جلد 08، صفحہ 24، دار الکتب العلمیہ ، بیروت)
حلیۃ الاولیاء میں حافظ
ابو نعیم اصفہانی علیہ الرحمۃ اپنی سند کے ساتھ
روایت نقل فرماتے ہیں:’’ عن ابن عباس: أن النبی صلى اللہ عليه وسلم أتی
بجنازة فصلى عليها وكبر عليها أربعا وقال: «كبرت الملائكة على آدم أربع تكبيرات».
وكبر أبو بكر على فاطمة أربعا، وكبر عمر على أبى بكر أربعا، وكبر صهيب على عمر
أربعا ‘‘یعنی : حضرت عبد اللہ بن عباس
رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی
اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں جنازہ لایا گیا، تو
آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے جنازہ پڑھایا اور چار
تکبیرات کہیں اور فرمایا: حضرت آدم علیہ السلام پر
فرشتوں نےچار تکبیرات کہیں ۔ (حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے
ہیں ) اور حضرت ابو بکر نے حضرت فاطمہ کے جنازے میں چار تکبیرات
کہیں ، اور حضرت عمر نے حضرت ابوبکر پر اور حضرت صہیب نے حضرت عمر پر
چار تکبیرات کہیں ۔(حلیۃ
الاولیاء، جلد 04، صفحہ 96، دار الفکر، بیروت)
محقق علی الاطلاق شیخ عبد الحق محدث
دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی مدارج النبوۃ میں
فرماتے ہیں :’’ایک قول یہ ہے کہ آ پ کی جنازہ کی
نماز حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے پڑھائی تھی
۔ ۔۔۔ لیکن روضۃ الاحباب وغیرہ کتب
میں مذکور اور روایات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابو بکر
صدیق رضی اللہ تعالی عنہ حاضر ہوئے تھے اور انہوں نے ہی
جنازہ کی نماز بھی پڑھائی تھی ،علاوہ ان کے حضرت عثمان بن
عفان ، عبد الرحمن بن عوف اور زبیر بن العوام رضی اللہ تعالی
عنہم بھی اس وقت موجود تھے۔‘‘( مدارج النبوۃ(مترجم)، جلد02،صفحہ686، مطبوعہ لاھور)
مفتی احمد یار خان
نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:’’(حضرت
فاطمہ رضی اللہ عنہا)کو جنابِ علی کرم الله
وجہہ نے غسل دیا آپ نے ہی نماز پڑھی اور شب میں
دفن کیا۔مگر صحیح یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے
آپ کا جنازہ پڑھایا۔‘‘(مرآۃ
المناجیح ، جلد 08، صفحہ 456،نعیمی کتب خانہ ، گجرات)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی تھی؟
حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ کس نے پڑھائی؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کے کونسے نفل بیٹھ کرپڑھتے تھے؟
کیا یہ درست ہے بعض بزرگ عشاء کے وضو سے فجر کی نمازادا کرتے تھے؟
نقش نعلین پاک کی کیا فضیلت ہے؟
کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سید ہیں؟
حضور عليہ الصلوۃ و السلام کا نام سن کر درود شریف پڑھنے کا حکم
غوث پاک کے قول: