Hazrat Ali Ki Namaz e Asr Ke Liye Suraj Palatne Ka Waqia

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی نماز عصر کے لیے سورج  واپس آنے کا واقعہ

مجیب: مفتی  ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Gul-2382

تاریخ اجراء: 13 جمادی الاولیٰ1443  ھ/18 دسمبر 2021 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلےکے بارےمیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے مشہور معجزات میں سے ایک معجزہ  یہ ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز قضا ہوئی،تو رسول پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ان کےلیے  سورج واپس لوٹا دیا۔جس وقت  حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز قضا ہوئی تھی، اس وقت  رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گود میں سر رکھ کر آرام فرما رہے تھے۔سوال یہ ہے کہ کیا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رسول پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی نماز بھی قضا ہوئی تھی، یا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ادا کر لی تھی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   احادیث مبارکہ میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نماز عصر ادا کر لی تھی ،صرف حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز قضا ہوئی تھی۔

   المعجم الکبیر کی حدیث پاک ہے: ”عن اسماء بنت عمیس ان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم صلی الظھر بالصھباء ثم ارسل علیا فی حاجۃ فرجع وقد صلی النبی  صلی اللہ علیہ وسلم العصر فوضع النبی  صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم راسہ فی حجر علی  فنام فلم یحرکہ حتی غابت الشمس فقال النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ”اللھم ان عبدک علیا احتبس بنفسہ علی نبیہ فرد علی الشمس“  قالت فطلعت علیہ الشمس حتی رفعت علی الجبال وعلی الارض وقام علی فتوضا وصلی العصر ثم غابت وذلک بالصھباء“ یعنی  حضرت اسما بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنھاسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مقام صہباء پر ظہر کی نماز ادا فرمائی اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کسی کام سے بھیج دیا۔جب وہ واپس آئے ،تو اس  وقت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم عصر کی نماز ادا فرما چکے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اپنا سر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گود میں رکھ کر آرام فرمانے لگے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی کوئی حرکت نہ کی،یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا۔ (جب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے، تو انہوں نے حضرت علی  کی نماز قضا ہونے پر ارشاد فرمایا۔ مترجم) یا اللہ تیرا بندہ علی اپنے نبی کی اطاعت میں تھا، لہذا تو سورج کو واپس لوٹا دے۔ حضرت اسما فرماتی  ہیں کہ سورج واپس پلٹ آیا ،یہاں تک کہ پہاڑوں اور زمین تک دھوپ آ گئی۔پھر حضرت علی کھڑے ہوئے، وضو کر کے عصر کی نماز ادا  کی ، پھر سورج غروب ہوگیا۔ یہ سارا واقعہ مقام صہباء پر پیش آیا۔ (المعجم الکبیر، جلد24، صفحہ144،قاھرہ )

   اس واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے شرح زرقانی میں ہے: ”فلم یصل علی العصر حتی غربت الشمس واما المصطفی فکان قد صلاھا کما یاتی فی الروایۃ الاخری“ یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عصر کی نماز ادا نہیں کی تھی کہ سورج غروب ہوگیا۔ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے عصر کی نماز ادا فرما لی تھی، جیسا کہ دوسری روایت میں ہے۔ (شرح الزرقانی، جلد6، صفحہ485، بیروت)

   سیرت مصطفے میں ہے: ”حضرت بی بی اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنھا کا بیان ہے کہ خیبر کے قریب منزل صہباء میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نماز عصر پڑھ کر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گود میں اپنا سر اقدس رکھ کر سو گئے اور آپ پر وحی نازل ہونے لگی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سر اقدس کو اپنی آغوش میں لیے بیٹھے رہے، یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا اور آپ کو یہ معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز عصر قضا ہو گئی، تو آپ نے یہ دعا فرمائی کہ یا اللہ یقیناً علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھے، لہذا تو سورج کو واپس لوٹا دے تا کہ علی نماز عصر ادا کر لیں۔ حضرت بی بی اسماء بنت عمیس کہتی ہیں کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ڈوبا ہوا سورج پلٹ آیا اور پہاڑوں کی چوٹیوں اور زمین کے اوپر ہر طرف دھوپ پھیل گئی۔“ (سیرت مصطفے، صفحہ722، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم