غوث پاک کے قول: " قدمی ھذہ علیٰ رقبۃ کلِ ولیِ اللہ " کی شرعی حیثیت؟ |
مجیب:مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی |
فتوی نمبر:Lar-6306 |
تاریخ اجراء:15جمادی الاولی1438ھ13فروری2017ء |
دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت |
(دعوت اسلامی) |
سوال |
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ حضور غوث پا ک رحمۃ اللہ علیہ کافرمان ہے :”قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ “ بعض لوگ اس بارے میں کہتے ہیں کہ یہ کو نساکوئی حدیث ہے ، یہ بس ایک ولی کاقول ہے ،اس کی کوئی حیثیت نہیں؟ |
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ |
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ |
یہ مقدس ارشاد” قدمی ھذہ علی رقبۃ کل ولی اللہ“ یعنی میرایہ قدم
اللہ تعالی کے ہرولی کی گردن پرہے،حضورغوث اعظم سید شیخ
عبدالقادر حسنی حسینی جیلانی رضی اﷲتعالی
عنہ سےسندمحدثانہ کے ساتھ بہ تواترمنقول
ہے ، جس کے حق ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔ جماہیر اولیائے عظام زمانہ ٔ مبارکہ سے آج تک اس فرمان والاکوتسلیم
کرتے ہیں ، بلکہ حضورکے فرمانے سے پہلے بلکہ ولادت مقدسہ سے بھی پہلے
حضرات اولیائے کرام کی پیشینگوئیوں
سے روزروشن کی طرح واضح ہوچکا تھا اوریہ بھی مسلمات محققہ سے ہے
کہ حضور کایہ فرمانااپنی طرف
سے ہرگز ہرگزنہیں بلکہ حضرت رب العالمین جل وعلاکے حکم خاص سے فرمایا
، لہٰذا جو جہلایہ کہتے ہیں کہ سرکارغوث اعظم رضی اللہ عنہ
کے اس فرمان کی کوئی حیثیت
نہیں ، وہ سخت بدباطن خبیث ہیں
اورحضورکے اس فضل کاانکاران کے دین وایمان کے لیے زہرقاتل ہے
۔اندیشہ ہے کہ ایسوں کاخاتمہ
بالخیرنہ ہو۔ امام ابوالحسن علی بن یوسف بن حمریر
لخمی بن شطنوفی قدس سرہ العزیز نے کتاب مستطاب بہجۃ الاسرار
شریف میں بسند مسلسل دو اکابر اولیاء اﷲ معاصرین
حضورغوث اعظم رضی اﷲ تعالی عنہ ، حضرت سیدی احمد
ابن ابی بکرحریمی وحضرت ابوعمروعثمان ابن صریفینی
قدس اﷲ اسرارہما سے دوحدیثیں روایت فرمائیں۔پہلی
کی سندیہ ہے: ” اخبرنا ابوالمعالی صالح بن احمد بن علی البغدادی المالکی
سنۃ احدی وسبعین وستمائۃ قال اخبرنا الشیخ ابوالحسن
البغدادی المعروف بالخفاف قال اخبرنا شیخنا الشیخ ابوالسعود احمدبن
ابی بکرن الحریمی بہ سنۃ ثمانین وخمسامئۃ “ اوردوسری سندیہ
ہے : ”اخبرنا ابوالمعالی قال
اخبرنا شیخ ابومحمد عبداللطیف البغدادی المعروف الصریفینی“اور ان دونوں حدیثوں کامتن
یہ ہے کہ دونوں حضرات کرام نے فرمایا: وﷲ مااظھر ﷲ تعالی ولایظھر
الی الوجود مثل الشیخ محی الدین عبدالقادر رضی ﷲ
تعالی عنہ۔یعنی خدا
کی قسم اﷲتعالی نے حضورسیدنا غوث الاعظم رضی اﷲتعالی
عنہ کے مانندنہ کوئی ولی عالم میں ظاہرکیانہ ظاہرکرے
۔ (بھجۃ الاسرار، ذکرفصول
من کلام بشیئ من عجائب احوالہ الخ،صفحہ25،مصر) نیز امام ابوالحسن علی بن یوسف
بن حمریر لخمی بن شطنوفی قدس سرہ العزیز کتاب موصوف میں
حضرت سیدی ابومحمدبن عبدبصری رضی اﷲ تعالی
عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت سیدنا خضرعلیہ السلام
کوفرماتے سنا:” مااوصل ﷲ تعالی
ولیا الی مقام الاوکان الشیخ عبدالقادر اعلاہ ولاسقی ﷲ
حبیبا کاساً من حبہ الاوکان الشیخ عبدالقادر اھناہ، ولاوھب ﷲ
لمقرب حالاالاوکان الشیخ عبدالقادر اجلہ، وقد اودعہ ﷲ تعالی سرّا
من اسرارہ سبق بہ جمھور الاولیاء ومااتخذ ﷲ ولیا کان اویکون
الاوھو متادب معہ الی یوم القیمۃ “ یعنی اﷲتعالی
نے جس ولی کوکسی مقام تک پہنچایا ، شیخ عبدالقادر کامقام
اس سے اعلی ہے اور جس پیارے کو اپنی محبت کاجام پلایا ،
شیخ عبدالقادر کے لئے اس سے بڑھ کرخوشگوار جام ہے اور جس مقرب کوکوئی
حال عطافرمایا ، شیخ عبدالقادر کاحال اس سے اعظم ہے۔ اﷲتعالی
نے اپنے اسرار سے وہ راز ان میں رکھاہے جس کے سبب ان کوجمہور اولیاء
پرسبقت ہے اوراﷲتعالی کے جتنے ولی ہوگئے یاہوں گے ، قیامت
تک سب شیخ عبدالقادر کا ادب کریں گے۔ (بھجۃ الاسرار،ذکرابومحمد القاسم بن عبدالبصری، صفحہ173، مصر) امام ابن حجر مکی شافعی علیہ
رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۹۷۴ھ) اپنے فتاویٰ
حدیثیہ میں فرماتے ہیں :” انھم قد یؤمرون تعریفا لجاھل او شکرا
وتحدثا بنعمۃ اللہ تعالی کما وقع الشیخ عبدالقادر رضی اللہ
تعالی عنہ انہ بینما ھو بمجلس وعظہ واذا ھو یقول قدمی ھٰذہٖ
علی رقبۃ کل ولی اللہ تعالی فاجابہ فی تلک الساعۃ
اولیاء الدنیا قال جماعۃ بل واولیاء الجن جمیعھم وطأطئوا
رء وسھم وخضعوالہ واعترفوابماقالہ الارجل باصبھان فابی فسلب حالہ“کبھی اولیاء کو
کلمات بلند کہنے کا حکم دیاجاتاہے کہ جو ان کے مقامات عالیہ سے ناواقف ہے اسے اطلاع
ہویا شکر الہٰی اوراس کی نعمت کا اظہار کرنے کے لئے جیسا
کہ حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے ہوا کہ انہوں
نے اپنی مجلس وعظ میں دفعۃً فرمایا کہ میرا یہ
پاؤں ہر ولی اللہ کی گردن پر ، فورًا دنیا کے تمام اولیاء
نے قبول کیا ۔ ایک جماعت کی روایت ہے کہ جملہ اولیائے
جن نے بھی اورسب نے اپنے سرجھکادئے اورسرکارغوثیت کے حضور جھک گئے اوران
کے اس ارشاد کا اقرار کیا مگر اصفہان میں ایک شخص منکر ہوا فورًا
اس کا حال سلب ہوگیا۔ (الفتاوی الحدیثیۃ ،مطلب فی قول الشیخ عبدالقادر،قدمی
ھذہ الخ، صفحہ414،داراحیاء التراث العربی، بیروت) فتاوی رضویہ میں ایک
مقام پرسوال ہواکہ بعض مداریوں نے
حضورغوث پاک کے اس فرمان قدمی ھذہ علی رقبۃ
ولی اللہ الخ پربحث کی، کیاحضرت
شاہ بدیع الدین مدارقدس اﷲ سرہ العزیز کی گردن پر بھی یہ قدم ہے یانہیں
؟ امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ نے
اس کے جواب میں فرمایا:” عوام
کوایسے امورمیں بحث کرناسخت مضرت کاباعث ہوتاہے۔ مبادا کسی
طرف گستاخی ہوجائے توعیاذاً باﷲ سخت تباہی وبربادی،
بلکہ اس کی شامت سے زوال ایمان کااندیشہ ہے، حضرت شاہ بدیع
الدین مدارقدس اﷲسرہ العزیز ضروراکابر اولیاء سے ہیں
مگر اس میں شک نہیں کہ حضورپرنور سیدناغوث الاعظم رضی اﷲتعالی
عنہ کامرتبہ بہت اعلی وافضل ہے۔ غوث اپنے دَور میں تمام اولیائے
عالم کاسردارہوتاہے۔ اورہمارے حضورامام حسن عسکری رضی اﷲتعالی
عنہ کے بعد سے سیدنا امام مہدی رضی اﷲتعالی عنہ کی
تشریف آوری تک تمام عالم کے غوث اورسب غوثوں کے غوث اور سب اولیاء
اﷲ کے سردارہیں اور ان سب کی گردن پران کاقدم پاک ہے۔“ (فتاوی رضویہ ،جلد26،صفحہ560،رضافاؤنڈیشن،لاھور) حضرت علامہ ابولخیرنوراللہ نعیمی
رحمۃ اللہ علیہ تحریرفرماتے ہیں:” حضورپرنور،نور علی
نورسیدناوغوثنا رضی اللہ عنہ کایہ مقدس ارشاد قدمی ھذہ علی
رقبۃ کل ولی اللہ کہ میرایہ قدم اللہ تعالی کے
ہرولی کی گردن پرہے،بالتواترثابت ہے ۔جماہیراولیائے عظام زمانہ ٔ مبارکہ سے آج تک تسلیم کرتے ہیں
بلکہ حضورکے فرمانے سے پہلے بلکہ ولادت مقدسہ سے بھی پہلے حضرات اولیائے
کرام کی پیشینگوئیوں
سے روزروشن کی طرح واضح و ہُویدا ہوچکاتھااوریہ بھی مسلمات
محققہ سے ہے کہ حضور کایہ فرمانااپنی طرف سے ہرگز ہرگزنہیں
بلکہ حضرت رب العالمین جل وعلاکے حکم خاص سے فرمایا۔“ (فتاوی نوریہ،جلد5،صفحہ166،دارالعلوم حنفیہ فریدیہ،بصیرپور) فتاوی شارح بخاری میں ہے:”قدمی ھذہ علی رقبۃ کل
ولی اللہ بلاشبہہ حضورغوث اعظم کایہ
ارشادہے جوسرکارغوث اعظم سے سندمحدثانہ کے
ساتھ بہ تواترمنقول ہے ۔جس میں کوئی شبہہ نہیں ۔جس
جاہل نے یہ کہاکہ یہ سرکارغوث اعظم رضی اللہ عنہ کاارشادنہیں
، وہ سخت بدباطن خبیث ہے۔اندیشہ
ہے اس کاخاتمہ بالخیرنہ ہو۔“ (فتاوی بخاری ،جلد2،صفحہ121، مکتبہ برکات المدینہ،کراچی) فتاوی شارح بخاری میں ہے:”سرکارغوث اعظم رضی اللہ عنہ نے ارشادفرمایا:”انکاری
سم قاتل لادیانکم “میراانکارتمہارے دینوں کے لیے زہرقاتل
ہے۔اوراس پرتجربہ شاہدہے ۔جس نے بھی سرکارغوث اعظم رضی اللہ
عنہ کاا نکارکیایاان کے ارشادات کوجھٹلایا ، وہ دنیاسے ایمان
سلامت نہیں لے گیاخودحدیث میں فرمایا گیا:”من عادلی ولیا فقداذنتہ بالحرب“یعنی جس نے میرے
کسی ولی سے عداوت کی اس
سے میں نے اعلان جنگ کردیاہے۔“ (فتاوی شارح بخاری ،جلد2،صفحہ145،برکات المدینہ،کراچی) |
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم |
کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی تھی؟
حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ کس نے پڑھائی؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کے کونسے نفل بیٹھ کرپڑھتے تھے؟
کیا یہ درست ہے بعض بزرگ عشاء کے وضو سے فجر کی نمازادا کرتے تھے؟
نقش نعلین پاک کی کیا فضیلت ہے؟
کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سید ہیں؟
حضور عليہ الصلوۃ و السلام کا نام سن کر درود شریف پڑھنے کا حکم
غوث اعظم در میان اولیاء ، چوں محمد در میان انبیاء ، شعر کا حکم؟