سید لقب ہے یا نسب نیز سید کون ہوتا ہے؟

مجیب:مفتی قاسم صآحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: Pin-6474

تاریخ اجراء:18رجب المرجب1441ھ14مارچ2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کےبارےمیں  کہ شروع سے ہمارے ہاں یہ بات سمجھی جاتی رہی ہے کہ سیّد وہ شخص ہے ،جو سیّدۃ النساء حضرت سیّدہ پاک فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے صاحبزادوں حضرت امام حسن یا امام حسین رضی اللہ عنہما کی نسل سے ہو،لیکن آجکل یہ بات سننے میں آئی ہے کہ قریشی اورہاشمی خاندان کےبعض لوگوں نے اپنے آپ کو سیّد کہلوانا اور اپنے ناموں کی ابتدا میں سیّد لکھنا شروع کر دیا ہے،ان لوگوں کا دعوی ہے کہ سیّد کوئی نسب نہیں،بلکہ ایک لقب ہے،جو کسی بھی خاندان کے عالم و فاضل اور مفتی کے لیے بولنا جائز ہے، خاندانِ نبوت کا نسب ہاشمی قریشی ہے،سیّد نہیں۔کیا ان لوگوں کا یہ نظریہ درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    سیّد کےلغوی معنیٰ ”سردار،آقا ، مالک“وغیرہ ہیں اورمسلمان احتراماً یہ لفظ حضور سیّدِ عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کےدونوں نواسوں ،امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہماکی اولاد پاک کے لیے بولتے ہیں۔ نیز اہلِ عرب سادات کےلیےلفظ’’شریف‘‘استعمال کرتے ہیں، جیسا کہ علماء و فقہاء کی عبارات سے واضح ہے۔صدرِ اول (شروع زمانے)میں عباسی،علوی وغیرہ تمام بنوہاشم کو شریف(سیّد)کہا جاتا تھااور یقیناً تمام مسلمانانِ بنوہاشم نبی کریم ﷺ کی نسبت ِ ہاشمی کا شرف رکھتے ہیں،لیکن بعدمیں شریف(سیّد) کا لفظ بطورِ خاص حضرت سیدنا امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما کی اولاد پاک کے لیے بولا جانے لگااورآج تک عرب و عجم کے عرف میں اسی معنیٰ کےاعتبار سےشریف اورسیّدکالفظ استعمال کیاجاتاہے،لہٰذا حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی اولاد کے علاوہ کسی ہاشمی(عباسی،علوی،قریشی وغیرہ) کا اپنے آپ کو  سیّد کہنا یا کہلوانایا اپنے نام کی ابتدا میں سیّد لکھنا،ہمارے پاک و  ہند اور اس طرح کے دیگر ممالک کے عرف کے مطابق درست نہیں ،  کیونکہ کسی کے نام کے ساتھ سیّدکا ٹائٹل(عنوان)

    لگاہواہو،تو فوراً ذہن اسی طرف جاتا ہے کہ یہ حضراتِ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے ذریعے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسل پاک میں سے ہے،جبکہ عباسی یا علوی وغیرہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اولاد میں سے نہیں ہوتے۔

حضراتِ حسنین کریمین رضی اللہ عنہماکی اولاد سیّدکہلاتی ہے۔چنانچہ علامہ طحطاوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”يطلق على مؤمني بني هاشم أشراف والواحد: شريف كما هو مصطلح السلف وإنما حدث تخصيص الشريف بولد الحسن والحسين في مصر خاصة في عهد الفاطمیین“ترجمہ:اشراف(سادات) کا لفظ بنوہاشم کے مؤمنین پر بولا جاتا ہےجیسا کہ علمائے اسلاف کی اصطلاح ہےاور اس کا واحدکا صیغہ” شریف“ہے اور اس کےبعد مصر میں فاطمی خلفاء کی خلافت کے دور میں حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی اولاد امجاد کے ساتھ شریف(سیّد)کا لفظ خاص کر دیا گیا۔                                 (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی،صفحہ12،مطبوعہ کراچی)

    امام جلال الدین سیوطی شافعی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:”ان اسم الشريف كان يطلق في الصدر الاول على كل من كان من اهل البيت سواء كان حسنيا ام حسينيا ام علويا من ذرية محمد بن الحنفية وغيره من اولاد علي بن ابي طالب ام جعفريا ام عقيليا ام عباسياولهذا تجد تاريخ الحافظ الذهبي مشحونا في التراجم بذلك يقول:الشريف العباسي، الشريف العقيلي، الشريف الجعفري، الشريف الزينبي، فلما ولي الخلفاء الفاطميون بمصر قصروا اسم الشريف على ذرية الحسن والحسين فقط فاستمر ذلك بمصر الى الآن“ترجمہ:صدرِ اول میں شریف(سیّد)کا اطلاق ہر اس فرد پر کیا جاتا تھا،جو اہلبیت میں سے ہوتاتھا،چاہے وہ حسینی ہو یا حسنی یا حضرت محمد بن حنفیہرضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے علوی ہو اور ان کے علاوہ حضرت سیّدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں ہو یا جعفری ہو یا عقیلی یا عباسی،اسی وجہ سے حافظ ذہبی علیہ الرحمۃ کی تاریخ میں تم یہ بات پاؤ گے کہ ان کی تاریخ اسی اصطلاح سے بھری ہوئی ہے کہ وہ کہتےہیں:عباسی شریف(سادات)عقیلی شریف،جعفری شریف،زینبی شریف۔پس جب مصر میں فاطمی خلفاء کی خلافت آئی،توانہوں نے شریف (سیّد) کا لفظ فقط حضراتِ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی اولاد پاک کے ساتھ خاص کر دیا اوریہی اصطلاح اب تک مصر میں چلی آرہی ہے۔

(الحاوی للفتاوی،جلد2،صفحہ39، دارالفکر،بیروت)

    علامہ ابن حجرمکی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”اعلم ان اسم الشريف كان يطلق في الصدر الاول على من كان من اهل البيت ولو عباسيا او عقيليا ومنه قول المؤرخين: الشريف العباسي، الشريف الزينبي؛ فلما ولى الفاطميون بمصر قصروا الشرف على ذرية الحسن والحسين فقط واستمر ذلك إلى الآن “ترجمہ:جان لو!بے شک صدرِ اول میں شریف(سیّد)کا اطلاق ہر اس فرد پر کیا جاتا تھا،جو اہلبیت میں سے ہوتاتھا،اگرچہ وہ عباسی یا عقیلی ہوتا اور اسی میں سے مؤرخین کا یہ قول ہے:عباسی شریف(سادات)، زینبی شریف۔پس جب مصر میں فاطمی خلفاء کی خلافت آئی،توانہوں نے شریف(سیّد) کا لفظ فقط حضراتِ حسنین کریمینرضی اللہ عنہما کی اولاد پاک کے ساتھ خاص کر دیا اوریہی اصطلاح اب تک مصر میں چلی آرہی ہے۔

 (الفتاوی الحدیثیہ، صفحہ168،مطبوعہ کراچی)

    امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”سبطین کریمین(حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما) کی اولاد سیّدہیں۔“

(فتاوی رضویہ،جلد13،صفحہ 361،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

    مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”خیال رہے کہ امام حسن و حسین(رضی اللہ عنہما) کی اولاد سیدکہلاتی ہے “

(اجمال ترجمہ اکمال ملحق بمرآۃ المناجیح،صفحہ102،نعیمی کتب خانہ،گجرات)

    نیزاگرچہ  پاک و ہند میں لفظِ سید تعظیم و تکریم کے لیےبطورِ لقب یا خطاب استعمال ہوتا ہے،لیکن عرف عام میں سیّد اسی کے ساتھ استعمال ہوتا ہے،جو امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما کی اولاد پاک میں سے ہو اور اہل عرف اسی مفہوم میں ان الفاظ کا استعمال کرتے ہیں، جیسا کہ اوپر اس بارے میں تفصیلی دلائل گزر چکےاوراصول فقہ کا قاعدہ ہے کہ  کسی لفظ سےعرف میں جو معنیٰ مرادلیے جاتے  ہوں،اس معنیٰ کو نہیں چھوڑا جاتا،بلکہ عرف کی وجہ سے حقیقی و لغوی  معنیٰ کو چھوڑ دیا جاتا ہے،تو معلوم ہوا کہ یہ لفظ عرف عام میں نسب کے بیان کے لیے ہی بولا جاتا ہے،لہٰذااسے مجرد(صرف)لقب ماننا اور نسب کے لیے استعمال ہونے کا انکار کرنابھی درست نہیں۔

    ہندوستان(پاک و ہند)میں لفظِ سیدتعظیم و تکریم کےلیےبطورِ لقب یا خطاب استعمال ہوتا ہے۔چنانچہ امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”شیخ کسی خاص قوم کانام نہیں، ہندوستان میں مسلمانوں نے تین قومیں خاص شریف قرار دیں اور انہیں سید یا میر اور خاں اور بیگ کے خطاب دئے کہ ان سب لفظوں کے معنی عربی وفارسی وترکی میں سردار ہیں، باقی تمام شرفاء مثل اولاد امجاد خلفائے کرام وبنی عباس وانصار کو ایک لقب عام دیا، شیخ کہ یہ بھی بمعنی بزرگ ہے، ان کے سوا جوقومیں رہ گئیں کہ دنیاوی عرف میں رذیل سمجھی جاتی ہیں، انہوں نے جب دیکھا کہ میر وخادم وبیگ تو خاص خاص اقوام کے لقب ہیں، ان میں گنجائش نہیں اور شیخ ایک عام لفظ ہے جس میں باقی سب داخل ، تو اسی کو سمائی والاخطاب پاکر سب قوموں نے اپنی بھرتی اسی میں کردی۔“

                 (فتاوی رضویہ،جلد11،صفحہ719،رضافاؤنڈیشن،لاھور)

    کسی لفظ سےعرف میں جو معنیٰ مرادلیے جاتے  ہوں،اس کی وجہ سے حقیقی و لغوی  معنیٰ کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔چنانچہ البنایہ شرح الہدایہ میں ہے:”أن مقتضى اللفظ قد يترك به بدلالة العرف “ ترجمہ:لفظ کے مقتضی کو عرف کی دلالت کی وجہ سے ترک کر دیا جاتا ہے۔       

(البنایۃ شرح الھدایۃ،جلد10،صفحہ58،دارالکتب العلمیۃ،بیروت)

    اس تفصیل سےمعلوم ہوا کہ  ہمارے عرف کےمطابق کسی ایسے فرد یا عالم یا مفتی وغیرہ کے لیےلفظِ سیّد مطلق نہیں بول سکتےکہ جو حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی اولاد میں سے نہ ہو،البتہ ہمارے ہاں بمعنیٰ لغوی بزرگانِ دین مثلاً صحابۂ کرام و اولیائے عظام  علیہم الرضوان کے لیے سیّدنا(ہمارے سردارو آقا)نسبت و اضافت کے ساتھ بولا جاتا ہے ،وہ اس ممانعت میں داخل نہیں،کیونکہ ان بزرگوں کےاسماء کے ساتھ صرف لفظ سیّد استعمال نہیں کیا جاتا، بلکہ اضافت کےساتھ ’’سیّدنا‘‘یا’’ سیدی‘‘ استعمال کرتے  ہیں اورہمارے عرف میں اس طرح اضافت کے ساتھ لفظِ سیّدبولنے سے کوئی بھی یہ نہیں سمجھتا کہ یہ بزرگ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسل پاک میں سے ہیں ،لہٰذا اس طور پراضافت کےساتھ کسی بزرگ کے ساتھ لفظ ’’سیّد‘‘لکھنا یا بولنادرست ہے۔

    یہ سارا عرف پاک و ہند کے تناظر میں بیان کیا ہے۔ کسی دوسرے ملک یا علاقے کا عرف اس سے ہٹ کر ہو تو اس پر یہ حکم نہیں ہوگا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم