Tabish Alam Ya Tafeef Alam Naam Rakhna Kaisa Hai ?

تابش عالم یا تافیف عالم، نام رکھنا کیسا ہے ؟

مجیب: محمد عرفان مدنی عطاری

فتوی نمبر: WAT-1326

تاریخ اجراء:       09جمادی الاخریٰ1444 ھ/02جنوری2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

      میرا بیٹا پیدا ہو اہے، اس کا نام تابش عالم یا تافیف عالم رکھنا چاہ رہے ہیں، اس بارے میں رہنمائی کر دیجئے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   تابش عالم نام رکھ سکتے ہیں لیکن تافیف عالم نام معنی کے لحاظ موزوں نہیں ہے ،لہذایہ نام نہ رکھاجائے ۔اس کی تفصیل درج ذیل ہے:

   تابش کا معنی: گرمی، حرارت، تپش، چمک، دھوپ کی چمک، روشنی وغیرہ ہے۔(فرہنگ آصفیہ،ج01، صفحہ543، مطبوعہ: لاہور)

   اورلفظ "عالم" میں اگرلام پرزبرہوتواس کامطلب ہے:" دنیا۔"تواس اعتبارسے "تابش عالم"کامطلب ہوگا : "دنیاکی چمک،دنیاکی روشنی وغیرہ ۔"

   اوراگرلفظ"عالم" میں لام کے نیچے زیرہوتواس کامطلب ہے:"علم والا،جاننے والا۔"تواس اعتبارسے "تابش عالم"کامطلب بنے گا:"علم والے کی روشنی ۔"

   توتابش عالم کےدونوں  اعتبارسے معانی مناسب ہیں ۔لہذادونوں اعتبارسے یہ نام رکھ سکتے ہیں۔

   اور تافیف کا معنی:" غم اور بے قراری کی وجہ سے اف اف کہنا۔" (المنجد، صفحہ 31، مطبوعہ: لاہور)

   اوریہ معنی مناسب نہیں ہیں ،لہذااس کے ساتھ نام نہ رکھاجائے ۔

نوٹ: بہتر یہ ہے کہ بچے کا اصل نام ’’محمد‘‘ رکھیں تا کہ نامِ محمد کی فضیلت اور برکتیں بھی حاصل ہو جائیں اور پکارنے کے لئے ’’تابش عالم ‘‘یوں مکمل نام ’’محمد تابش عالم‘‘ ہو جائے گا۔اوراس میں بھی بہتریہ ہے کہ بچے کانام نیک لوگوں  میں سے کسی کے نام پر رکھاجائے کہ حدیث پاک میں اس کی ترغیب ارشادفرمائی گئی ہے۔

   کنز العمال میں بحوالہ رافعی عن ابی امامۃ روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ” من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا لي وتبركا باسمي كان هو ومولوده في الجنة“ترجمہ:جس کے ہاں بیٹا  پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔(کنز العمال،ج 16،ص 422، مؤسسة الرسالة،بیروت)

   رد المحتار میں مذکورہ حدیث کے تحت ہے” قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب وإسناده حسن اهـ“ ترجمہ: جتنی بھی احادیث اس باب میں وارد ہوئیں،یہ حدیث ان سب میں بہتر ہے اور اس کی سند حسن ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الحظر ولاباحۃ،ج 6،ص 417،دار الفکر،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم