بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نفسِ مسئلہ جاننے سے
پہلے یہ سمجھ لیجئےکہ اصل نام کے علاوہ وہ نام جس سے پہلے اَبُو ،
اِبن ، اُم یا بِنت وغیرہ
موجود ہو اس کو ”
کنیت “ کہا جاتا ہے ،
جیسے ابو القاسم ، اِبنِ
ہشام ، اُمِّ ہانی ، بنتِ حوّا وغیرہ
، کنیت کبھی والد کی
نسبت سے رکھی جاتی ہے،کبھی بیٹے یا بیٹی
کی نسبت سے رکھی جاتی
ہے ۔مرد و عورت دونوں کے لیے
کنیت رکھنا ، مستحب یعنی کارِ ثواب ہے، کنیت رکھنے کے لیے
بندے کا شادی شدہ یا صاحبِ
اولاد ہونا ، ضروری نہیں ،
اہلِ عرب کی عادت یہ تھی کہ جب ان کے ہاں بچے کی
ولادت ہوتی ، تو اس کی کنیت
رکھتے اور اس میں نیک فال لیتے
تھے کہ ان شاء اللہ عَزَّوَجَلَّ ایک دن یہ بچہ والد بنے گا ، نبی کریم صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ صحابہ کرام عَلَیْہِمُ
الرِّضْوَان کو کنیت عطا فرماتے تھے ، خواہ وہ صحابی یا صحابیہ
صاحبِ اولاد ہوتے یا نہ ہوتے اور بعض روایات سے نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کا بچوں کو کنیت
عطا فرمانا اور انہیں کنیت سے
پکارنا ثابت ہے ، بلکہ پیارے آقا صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بچوں کی کنیت
رکھنے کی تعلیم بھی ارشاد فرمائی ہے ۔
تمہیدی گفتگو کو سمجھنے کے بعد نفسِ مسئلہ
کا جواب یہ ہے کہ جس طرح بڑے افراد خواہ صاحبِ اولاد ہوں یا نہ ہوں ،
ان کے لیے کنیت رکھنا، جائز و
مستحب ہے ، یونہی بچوں
کی کنیت رکھنا بھی جائز
، بلکہ مستحب ہے ۔
کنیت کی تعریف
کے متعلق علامہ علی بن محمد الشریف الجرجانی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہ (سالِ وفات:816ھ) لکھتے ہیں
:”الکنیۃ : ما صدر
باب او ام او ابن
او بنت “یعنی وہ
نام جس سے پہلے ابو یا ام یا ابن یابنت موجود ہو ، کنیت کہلاتا ہے ۔( التعریفات ، صفحہ 157 ،
مطبوعہ دارالفضیلۃ )
نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
صحابہ کرام و صحابیات عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو کنیت عطا فرماتے تھے ، چنانچہ
آپ عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ
السَّلام نے حضرت عبد اللہ بن مسعود
رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو کنیت
عطا فرمائی ، جیسا کہ حدیثِ پاک کی مشہور کتاب " المستدرک
" میں ہے :”عن
عبد اللہ بن مسعود، أن النبي صلى اللہ عليه وسلم كناه أبا عبد الرحمن ولم يولد له “ ترجمہ : حضرت
عبداللہ بن مسعود رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے
ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کو ابو
عبد الرحمٰن کنیت عطا فرمائی ، حالانکہ ان کے ہاں ابھی
اولاد نہیں تھی ۔ ( المستدرک ، کتاب معرفۃ الصحابۃ ، جلد 3 ، صفحہ 353 ،مطبوعہ
دار الکتب العلمیہ ، بیروت )
نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سیّدہ
عائشہ صدیقہ رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کو کنیت عطا
فرمائی ، چنانچہ معجم کبیر کی حدیثِ پاک میں ہے :”أن عائشة، قالت: يا رسول
اللہ ألا تكنيني؟، فقال: اكتني بعبد اللہ بن الزبير ، فكانت تكنى أم عبد اللہ “ ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے عرض کی ، یا رسول اللہ ! صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیا آپ مجھے کنیت نہیں عطا فرمائیں
گے ؟ تو نبی پاک صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا
: تم ( اپنی بہن کے بیٹے )
عبدا للہ بن زبیر رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی نسبت
سے کنیت رکھو ، تو سیّدہ
عائشہ صدیقہ رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کی کنیت امِّ عبداللہ پڑ گئی ۔( المعجم الکبیر ، جلد 13 ،
صفحہ 90 ، مطبوعہ القاھرہ )
مذکورہ بالا دونوں روایات سے
معلوم ہوا کہ کنیت ہونے کےلیے
صاحبِ اولاد ہونا ضروری نہیں ، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود
اور سیّدہ عائشہ رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو نبی
پاک صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے کنیت عطا فرمائی ،
حالانکہ اس وقت دونوں کے پاس ہی اولاد نہیں تھی ۔
نبی کریم صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بچوں کو کنیت عطا فرمانا اور
انہیں اس کنیت سے پکارنا ثابت ہے، چنانچہ بہت سی کتبِ احادیث
میں ہے ، واللفظ
لابن ماجہ :”عن
أنس، قال: كان النبي صلى اللہ عليه
وسلم يأتينا، فيقول لأخ لي، وكان
صغيرا: يا أبا عمير “ترجمہ : حضرت انس رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے
ہیں کہ نبی پاک صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے ہاں تشریف
لایا کرتے تھے اور ان کا ایک
چھوٹا بھائی تھا ، اس کو " اے
ابو عمیر " کی کنیت سے پکارتے تھے ۔( سنن ابن ماجہ ، ابواب الادب ، صفحہ 401 ، مطبوعہ لاھور )
مذکورہ بالا حدیثِ پاک کی
شرح میں شارحِ بخاری علامہ
ابنِ بطال رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:449ھ) لکھتے ہیں :”الكنية إنما هى على معنى الكرامة
والتفاؤل أن يكون أبا ويكون له ابن، وإذا جاز أن يكنى الصبى فى صغره، فالرجل قبل
أن يولد له أولى بذلك “ ترجمہ : یہ کنیت رکھنا عزت
و تکریم کے طور پرہے اور اس میں نیک فال ہے کہ یہ والد بنے گا اور اس کے ہاں بھی
بیٹا ہوگا اور جب بچے کی اس
کے بچپن میں کنیت رکھنا جائز
ہے ، تو بڑے آدمی کی اولاد ہونے سے پہلے کنیت رکھنا
، بدرجہ اولیٰ جائز ہے ۔( شرح صحيح البخاري ابن بطال ، جلد 9 ، صفحہ 351 ، مطبوعہ مکتبۃ الرشد ، الریاض)
نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بچوں کی کنیت رکھنے
کی خود تعلیم ارشاد فرمائی ، چنانچہ كنز العمال کی حدیثِ پاک میں ہے : ”بادروا بابناءکم الکنی لا
تلزمھا الالقاب “ ترجمہ : اپنے بچوں کی کنیت رکھنے میں جلدی
کرو ، کہیں ان کے برے القاب نہ پڑ
جائیں ۔( کنز
العمال ، الباب السابع ،جلد16،صفحہ423، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ ، بیروت
)
اسی طرح کی ایک حدیثِ پاک کے
تحت شرح ابن رسلان میں ہے :”فیہ استحباب تكنية المرأة والصغير والرجل، فإن فيه نوع إكرام“ ترجمہ:اس میں
عورت، بچے اور مرد کی کنیت کے
مستحب ہونے پر دلیل ہے اور اس میں تعظیم کا پہلو ہے ۔(شرح سنن ابی داودلابن
رسلان،جلد19،صفحہ95،مطبوعہ دارالفلاح ، مصر)
محیطِ برہانی
میں ہے :”فكان عادة العرب أنه إذا ولد لأحدهم ولد كان يكنى
به ... ولو كنى ابنه الصغير بأبي بكر، أو غيره كره بعضهم، إذ ليس لهذا الابن ابن
اسمه بكر ليكون هو أب بكر، وعامتهم على أنه لا يكره ، لأن الناس يريدون بهذا التعالي أنه سيصير في
ثاني الحال، لا التحقيق في الحال “
ترجمہ : اہلِ عرب کی عادت تھی
کہ جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ، تو اس کی کنیت رکھ دیا
کرتے تھے اور اگر کسی نے اپنے چھوٹے
بیٹے کی کنیت ابو
بکر وغیرہ رکھی ، تو بعض علما کے نزدیک یہ مکروہ ہے ، کیونکہ اس کا تو ابھی
ایسا بچہ نہیں ہے ، جس کا نام ابو بکر ہو اور یہ بچہ اس کا والد شمار ہو ، لیکن
اکثر علما کے نزدیک یہ مکروہ نہیں ، کیونکہ لوگ اس سے نیک فال لیتے
ہیں کہ عنقریب یہ بھی والد بنے گا ، فی الحال اس کا والد ہونا مراد نہیں لیتے ۔( المحیط البرھانی ،
جلد 5 ، صفحہ 382 ، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت )
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم