Kya Armiya Kisi Nabi Ka Naam Hai ? Aur Larke Ka Armiya Naam Rakhna Kaisa ?

کیا ”ارمیا “ کسی نبی کا نام ہے ؟ اور لڑکے کا نام ارمیا رکھنا کیسا ؟

مجیب: سید مسعود علی عطاری مدنی

فتوی نمبر: Web-828

تاریخ اجراء: 08 جماد  ی الثانی1444 ھ/01جنوری2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا”ارمیا“کسی نبی علیہ السلام کا نام ہے؟ اس کا درست تلفظ کیاہے اورکیا یہ نام لڑکے کا رکھا جاسکتاہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ارمیاء ایک نبی علیہ السلام کا نام ہے، یہ ان  انبیائے کرام  میں شامل ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ  نے حضرت موسیٰ  علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ  علیہ السلام کے مبارک زمانوں کے درمیان بھیجا۔ علمائے کرام  نے اس نام کے مختلف تلفظ بیان فرمائے ہیں: اُرمِیَّا، اَرمِیَاء، اُرمِیَاء، اِرمِیَاء“ ۔ بہرحال کسی لڑکے کا یہ نام رکھنا جائز ہے۔

   تفسیرِ خازن میں ہے:”كانت الرسل بعد موسى إلى زمن عيسى عليهم السلام متواترة يظهر بعضهم في أثر بعض، والشريعة واحدة : قيل إن الرسل بعد موسى يوشع بن نون وأشمويل وداود وسليمان وأرمياء وحزقيل وإلياس ويونس وزكريا ويحيى وغيرهم ، وكانوا يحكمون بشريعة موسى إلى أن بعث الله تعالى عيسى عليه السلام فجاءهم بشريعة جديدة“یعنی حضرت  موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ تک متواتر رسول آتے رہے جن میں سے بعض بعض کے بعد ظاہر ہوتے  اور شریعت ایک ہی تھی ، اور کہا گیا :موسیٰ علیہ السلام کے بعد یہ حضرات رسول ہوئے:یوشع بن نون، اشمویل، داؤد، سلیمان، ارمیا، حزقیل، الیاس، یونس، زکریا اور حضرت یحییٰ علیہم الصلاۃ والسلام ۔ یہ  حضرات ِ انبیاء سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے مطابق حکم دیتے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا ،تو وہ نئی شریعت لے کر تشریف لائے۔(تفسیرِ خازن، جلد1،صفحہ 59،مطبوعہ:بیروت)

   مشہور مفسر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہم السلام کے درمیان چار ہزار پیغمبر گزرے، جن میں سے بڑے بڑے پیغمبر حضرت یوشع، الیاس ، الیسع ، شمویل، داؤد، سلیمان،شعیا ،ارمیا، یونس، عزیر، حزقیل، زکریا، یحییٰ،شمعون علیہم السلام ہیں، یہ سب حضرات توریت شریف کے احکام کی تبلیغ فرماتے تھے اور ان کی ایک ہی شریعت تھی۔“(تفسیرِ نعیمی، جلد1،صفحہ 466،مکتبہ اسلامیہ، لاھور)

   شرح شفا شریف میں ہے:”ارمیاء بفتح الھمزۃ وسکون الراء وکسر المیم“یعنی ارمیاء  میں ہمزہ پر زبر ، راء پر جزم اور میم کے نیچے  زیر ہے۔(شرح الشفا للقاری، جلد 2،صفحہ 459،مطبوعہ: بیروت)

   تفسیرِ روح البیان میں ہے:”اُرمِیَّا بتشدید الیاء مع ضم الھمزۃ علی روایۃ الزمخشری  وبضم الھمزۃ وکسرھا مخففا علی روایۃ غیرہ وفی القاموس :ارمیا بالکسر نبی“یعنی  زمخشری کی روایت کے مطابق ارمیا  میں یا پر تشدید اور ہمزہ پر پیش ہے جبکہ دیگر کی روایت کے مطابق ہمزہ  پر پیش  اور زیر  کے ساتھ اس حال میں کہ ”ی“ مخفف(یعنی بلا تشدید)ہو اور قاموس میں ہے:ارمیا زیر  کے ساتھ ایک نبی علیہ السلام (کا نام) ہے۔(تفسیرِ روح البیان ، جلد 5،صفحہ 132،مطبوعہ:بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم