Bachi Ka Naam Umme Roman Rakhna

 

بچی کا نام "امِ رومان" رکھنا

مجیب:مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3114

تاریخ اجراء: 21ربیع الاول1446 ھ/25ستمبر2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   میری بیٹی یکم  اگست کو پیدا ہوئی اور میں نے اس کا نام” ام رومان “رکھا تھا، پھر کچھ لوگوں نے کہا یہ صحیح  نہیں، آپ اس حوالے سے  رہنمائی فرما دیں اور کوئی اچھا سا صحابیہ کا نام بتادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    بیٹی کا نام ”ام رومان “ رکھنا  بالکل درست ہے ،جن لوگ  نے یہ کہا کہ یہ نام صحیح نہیں ،وہ غلط کہتے ہیں کیونکہ" ام رومان"خلیفۂ اوّل حضرت سیّدُنا صِدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی زَوجہ محترمہ  اور اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدَتُنا عائشہ صِدیقہ رضی اللہ عنہا کی والدہ کی کنیت  ہے  ۔ اور  بہتر بھی یہی ہے  کہ ایسانام رکھا جائے جو کہ  نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اَزواج مطہرات، بیٹیوں ،صحابیات رضی اللہ عنہن اور نیک خواتین کے نام پر ہو کہ حدیث پاک میں اچھے نام  رکھنے کی ترغیب ارشادفرمائی گئی ہے اور امید ہے کہ اس کی وجہ سے ان  بزرگ  خواتین کی برکتیں بھی شامل حال ہو ں گی۔

    الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں ہے :”أم رومان  : بنت عامر بن عويمر۔۔۔ امرأة أبي بكر الصديق، ووالدة عبد الرحمن وعائشة۔۔۔۔واختلف في اسمها ؛ فقيل زينب، وقيل دعد“ترجمہ : ام رومان یہ بنت عامر بن عویمر ہیں ،جو حضرت سیّدُنا صِدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی زَوجہ محترمہ  اور حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ اور اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدَتُنا عائشہ صِدیقہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ہیں ،ان کے نام میں اختلاف ہے ،ایک قول کے مطابق ان کا نام زینب ہے ،اور دوسرے قول کے مطابق دعد ہے ۔( الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ،جلد 08، صفحہ 391، دار الکتب العلمیۃ،بیروت )

    فتح الباری  لابن حجر میں ہے :” والكنية ما صدرت بأب أو أم “ترجمہ :کنیت وہ علم ہے جو”اب“یا ”ام“ سے شروع ہو ۔(فتح الباری  لابن حجر،جلد 06،صفحہ 560،دار المعرفۃ،بیروت)

    کنیت کے بطور نام ہو نے کے متعلق عمدۃ القاری میں ہے:” كثير من الأسماء المصدرة بالأب أو الأم لم يقصد بها الكنية، وإنما يقصد بها إما العلم وإما اللقب ولا يقصد بها الكنية“ترجمہ :بہت سے نام ”اب، ام“سے شروع ہوتے ہیں لیکن ان سے کنیت مقصود نہیں ہوتی بلکہ اس سے یا تو نام مقصود ہوتاہے یا لقب ،اس سے کنیت مراد نہیں ہوتی۔(عمدۃالقاری شرح صحیح البخاری ،جلد22،صفحہ218، دار إحياء التراث العربي ، بیروت)

    حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن کی کنیت کے متعلق عمد ۃالقاری  ہی میں ہے :” وأبو سلمة هو ابن عبد الرحمن بن عوف و المشهور أن هذه الكنية هي اسمه “ترجمہ : ابو سلمہ جو کہ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کے بیٹے ہیں ، ان کے متعلق مشہور ہےکہ ان کی کنیت ہی ان کانام ہے ۔ (عمدۃالقاری شرح صحیح البخاری ،جلد19،صفحہ111، دار إحياء التراث العربي ، بیروت)

    حدیث پاک میں اچھے نام رکھنے کی ترغیب ارشادفرمائی گئی ہے،چنانچہ حضرت سیِّدُنا ابودَرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مَروی ہے کہ نبی پاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :إنكم تدعون يوم القيامة بأسمائكم، وأسماء آبائكم، فأحسنوا أسماءكم ترجمہ : قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤ گے، لہٰذا اپنے اچھے نام رکھا کرو۔(سنن ابی  داؤد، کتاب الادب ، جلد 4، صفحہ 287 ، الحدیث:4948، المكتبة العصرية، بيروت)

    صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”بچہ کا اچھا نام رکھا جائے۔ ہندوستان میں بہت لوگوں کے ایسے نام ہیں ، جن کے کچھ معنی نہیں یا اون کے برے معنی ہیں ، ایسے ناموں سے احتراز کریں۔ انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے ، امید ہے کہ اون کی برکت بچہ کے شاملِ حال ہو۔“ (بہار شریعت ، جلد3،حصہ 15، صفحہ356، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

    نوٹ : ناموں کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لیے دعوتِ اسلامی کے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ”نام رکھنے کے احکام“ پڑھیں ۔ اس میں بچوں اور بچیوں کے بہت سے اسلامی نام بھی لکھے ہوئے ہیں ،وہاں سے دیکھ کر کوئی سا بھی اچھا نام رکھا جا سکتا ہے ۔ نیچے دئے گئے لنک سے یہ کتاب ڈاؤن لوڈ بھی کی جا سکتی ہے ۔

https://www.dawateislami.net/bookslibrary/ur/naam-rakhnay-kay-ahkam

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم