Bachi Ka Naam Nawal Noor Rakhna

 

بچی کا نام نوال نور رکھنا

مجیب:مولانا اعظم عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-3182

تاریخ اجراء: 13ربیع الثانی 1446ھ/17اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ  نوال نور  نام رکھنا کیسا ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

      نوال نورنام رکھنادرست ہے ۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ :

      نوال کا معنی " عطیہ ،بخشش،حصہ" وغیرہ  ہےاور نور،اللہ تعالی کانام بھی ہے ۔ تواگرنوال کی نورکی طرف اضافت مانیں تومطلب ہوگا:"اللہ تعالی کاعطیہ"۔

      اوراگردونوں کوعلیحدہ علیحدہ مستقل شمارکیاجائے تواس میں بھی حرج نہیں ،اس صورت میں نورکامعنی ہوگا : "روشنی"۔

      البتہ !بہتریہ ہے کہ بچی کا نام نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات،بیٹیوں، صحابیات رضی اللہ عنہن اور نیک خواتین کے نام پر رکھا جائےکہ حدیث پاک میں اچھے لوگوں کے نام پرنام رکھنے کی ترغیب ارشادفرمائی گئی ہے، نیزامیدہے کہ اچھے نام کی برکت اور ان بزرگ ہستیوں کی برکت بھی بچی کےشامل حال ہو گی۔

   قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:﴿ اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ﴾ ترجمۂ کنز الایمان : اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا ۔ (پارہ 18،سورۃ النور،آیت 35)

   تفسیر خزائن العرفان میں ہے : ”نور اللہ تعالٰی کے ناموں میں سے ایک نام ہے ۔ حضرت ا بنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا : معنٰی یہ ہیں کہ اللہ آسمان و زمین کا ہادی ہے ،  تو اہلِ سمٰوٰت وَ اَرض (آسمان و زمین والے) اُس کے نور سے حق کی راہ پاتے ہیں اور اُس کی ہدایت سے گمراہی کی حیرت سے نجات حاصل کرتے ہیں ۔ “(تفسیر خزائن العرفان ، پارہ18 ، سورۃ النور،صفحہ 658،تحت الآیۃ:35،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   معجم متن اللغۃ میں ہے” النوال: العطاء: الصواب: النصيب“ترجمہ:نوال:عطیہ،درستی،حصہ۔(معجم متن اللغۃ،ج 5،ص 580، دار مكتبة الحياة ، بيروت)

      القاموس الوحید میں ہے”النوال:عطیہ،بخشش۔“ (القاموس الوحید،ص 1728،ادارہ اسلامیات،لاہور)

   الفردوس بماثور الخطاب میں ہے:”تسموا بخياركم “ ترجمہ: اچھوں کے نام پر نام رکھو ۔(الفردوس بماثور الخطاب، جلد2، صفحہ58، حدیث2329، دار الكتب العلمية ، بيروت)

   امام اہلسنت الشاہ  امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی  علیہ فرماتے  ہیں:” حدیث سے ثابت کہ محبوبان خداانبیاء واولیاء علیہم الصلوۃ  والثناء کے اسمائے طیبہ پرنام رکھنا مستحب ہے جبکہ ان کے مخصوصات سے نہ ہو۔“(فتاوی رضویہ ، ج 24، ص  685، رضا فاؤنڈیشن ، لاہور )

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”بچہ کا اچھا نام رکھا جائے۔ ہندوستان میں بہت لوگوں کے ایسے نام ہیں ، جن کے کچھ معنی نہیں یا اون کے برے معنی ہیں ، ایسے ناموں سے احتراز کریں۔ انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے ، امید ہے کہ اون کی برکت بچہ کے شاملِ حال ہو۔“(بہار شریعت ، جلد3،حصہ 15، صفحہ356، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم