Bachi Ka Naam Alaya Rakhna

 

بچی کا نام علایہ رکھنا

مجیب:مولانا محمد ابوبکر عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3332

تاریخ اجراء: 01جمادی الاخریٰ 1446ھ/04دسمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا  بچی کا نام علایہ رکھ سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   علایہ،دراصل عربی زبان کا لفظ ہے،  جس کا معنی ہے "بلند جگہ "اوریہ روم کے ایک شہر کا نام بھی ہے۔لہذا اس اعتبار سے بچی کا یہ نام رکھنا جائز ہے ۔البتہ بہتریہ ہے کہ بچی کا نام نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات، بیٹیوں، صحابیات رضی اللہ عنہن اور نیک خواتین کے نام پر رکھا جائےکہ حدیث پاک میں اچھے لوگوں کے نام پرنام رکھنے کی ترغیب ارشادفرمائی گئی ہے۔

   تاج العروس میں ہے:" العلاية: كل موضع مرتفع "ترجمہ:علایہ:ہر بلند جگہ۔ (تاج العروس،جلد39، صفحہ87، دار الھدایہ)

   اسی میں ہے :"والعلاية: بلد بالروم"ترجمہ:علایہ روم کا ایک شہر ہے۔ (تاج العروس،جلد39،صفحہ98،دار الھدایہ)

   الفردوس بماثور الخطاب میں ہے:”تسموا بخياركم “ ترجمہ: اچھوں کے نام پر نام رکھو ۔(الفردوس بماثور الخطاب، جلد2، صفحہ58، حدیث2328، دار الكتب العلمية ، بيروت)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”بچہ کا اچھا نام رکھا جائے۔ ہندوستان میں بہت لوگوں کے ایسے نام ہیں ، جن کے کچھ معنی نہیں یا اون کے برے معنی ہیں ، ایسے ناموں سے احتراز کریں۔ انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے ، امید ہے کہ اون کی برکت بچہ کے شاملِ حال ہو۔“ (بہار شریعت ، جلد3،حصہ 15، صفحہ356، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم