Bache Ka Naam Musanna Rakhna

 

بچے کا نام "مثنٰی" رکھنا

مجیب:مولانا عبدالرب شاکر عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2968

تاریخ اجراء: 09صفر المظفر1446 ھ/15اگست2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   امام حسن مثنیٰ رحمہ اللہ کے نام پر مثنیٰ نام رکھنا کیسا ہے؟ کیا مثنیٰ نام رکھ سکتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مُثَنّٰی کے معانی ہیں:’’ثانی ، دوسرا ، وغیرہ‘‘ یہ نام رکھنا جائز و درست ہے اور یہ نام برکت والا بھی ہے کہ یہ صحابی رسول حضرت مثنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا نام ہے اور یونہی حضرتِ حسن مثنی رحمہ اللہ کا لقب بھی ہے۔البتہ بہتریہ ہے کہ اولاًبیٹے کانام صرف "محمد" رکھیں، کیونکہ حدیث پاک میں"محمد"نام رکھنے کی فضیلت اورترغیب ارشادفرمائی گئی ہے اور ظاہریہ ہے کہ یہ فضیلت تنہانام محمدرکھنے کی ہے،پھرپکارنے کے لیے "مثنٰی"رکھ لیں۔

   فیروز اللغات میں ہے” مُثَنّٰی:(1) ثانی ، دوسرا(2) نقل مطابق اصل ، دوسرا پرت (3) جوڑ ، جوڑا ، جفت۔‘‘(فیروز اللغات،ص 1265،فیروز سنز،لاہور)

   "مثنٰی"نام کے صحابی رسول کےمتعلق الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ میں ہے:’’المثنى بن حارثة ۔۔۔قال ابن حبان:له صحبة ‘‘ ترجمہ : حضرت مثنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ۔ ۔۔امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ،ج 5،ص 568،569،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

   تاج العروس میں ہے” والمثنى۔۔۔ لقب الحسن بن الحسن بن علي، رضي الله تعالى عنه“ ترجمہ : اورمثنی  یہ امام حسن بن حسن بن علی کا لقب ہے،رضی اللہ تعالی عنھم۔(تاج العروس،ج 37،ص 305، دار الهداية)

محمدنام رکھنے کی فضیلت:

   کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا لي وتبركا باسمي كان هو ومولوده في الجنة“ترجمہ:جس کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔(کنز العمال،ج 16،ص 422، مؤسسة الرسالة،بیروت)

   رد المحتار میں مذکورہ حدیث کے تحت ہے” قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب وإسناده حسن “ترجمہ: علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے فرمایا:جتنی بھی احادیث اس باب میں وارد ہوئیں،یہ حدیث ان سب میں بہتر ہے اور اس کی سند حسن ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الحظر والاباحۃ،ج 6،ص 417،دار الفکر، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم