Bache Ka Naam Muhammad Hamdan Rakhna

محمد حمدان نام رکھنا

مجیب: مولانا احمد سلیم عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2346

تاریخ اجراء: 25جمادی الثانی1445 ھ/08جنوری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   محمد حمدان نام رکھنا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   "حمدان" لفظ "حمد" سے  تثنیہ کاصیغہ ہے  اورتثنیہ کے صیغے کے ساتھ ایک شخص کانام رکھنامعروف ہے ۔ اور حمد، مصدرہے اورمصدربول کر اسم فاعل مرادلیاجاتاہے اورمصدرسے تثنیہ بنانے کامقصدکثرت بیان کرناہوتاہے۔ تو یوں حمدان کامطلب بنے گا:"کثرت سے تعریف کرنے والا" لہذا یہ نام رکھنا جائز ہے۔

   المنجد میں ہے”حمدہ حمدا محمدا: فضیلت کی بنا پر تعریف کرنا“(المنجد، صفحہ 175، مطبوعہ: لاہور)

   النحو الوافي میں ہے''جرى الاستعمال قديماً وحديثًا على تسمية فرد من الناس وغيرهم باسمٍ، لفظه مثنى ولكن معناه مفرد، بقصد بلاغي كالمدح، أو الذم، أو التلميح مثل: "حمدان" تثنية: "حمْد" (النحو الوافي،ج 1،ص 126، دار المعارف)

   الاصول فی النحومیں ہے"واعلم أنهم ربما وصفوا بالمصدر نحو قولك: رجلٌ عدلٌ وعلم، فإذا فعلوا هذا فحقه أن لا يثنى ولا يجمع، ولا يذكّر ولا يؤنث والمعنى إنما هو ذو عَدلٍ فإن ثنى من هذا شيءٌ فإنما يشبه بالصفة إذا كثر الوصف به"(الاصول فی النحو،الثانی من التوابع،جلد1،صفحہ31،مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم