Bache Ka Naam Latif Rakhna Kaisa?

بچے کا نام " لطیف" رکھنا

مجیب:ابوالفیضان مولانا عرفان احمد عطاری

فتوی نمبر:WAT-3190

تاریخ اجراء:15ربیع الثانی1446ھ/19اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   صرف لطیف نام رکھنا کیسا ہے؟یعنی عبدا للطیف کی بجائے لطیف نام رکھنا اور پکارنا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   صرف”لطیف“ نام رکھنا  یا پکارنا، جائز ہے، کیونکہ یہ ”علی اور رشیدوغیرہ “ کی طرح اُن مخصوص اسمائے الہیہ میں سے نہیں کہ  جن کو عبد کی اضافت کے بغیر رکھنا یا پکارنا، درست نہ ہو، لہذا صرف لطیف نام بھی رکھ سکتے ہیں۔ البتہ! صرف لطیف نام رکھنے کی جائے بہتر یہ ہے کہ عبد اللطیف  رکھا اورپکارا جائے،اور اس میں بھی بہتر یہ ہے کہ اولاًبیٹے کا نام صرف "محمد" رکھیں، کیونکہ حدیث پاک میں"محمد"نام رکھنے کی فضیلت اورترغیب ارشادفرمائی گئی ہے اور ظاہر یہ ہے کہ یہ فضیلت تنہانام محمدرکھنے کی ہے،پھرپکارنے کے لیےلطیف یا عبد اللطیف رکھ لیں۔

محمدنام رکھنے کی فضیلت:

   کنز العمال میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”من ولد له مولود ذكر فسماه محمدا حبا لي وتبركا باسمي كان هو ومولوده في الجنة“ترجمہ:جس کے ہاں بیٹا پیدا ہو اور وہ میری محبت اور میرے نام سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کا نام محمد رکھے تو وہ اور اس کا بیٹا دونوں جنت میں جائیں گے۔(کنز العمال،ج 16،ص 422، مؤسسة الرسالة،بیروت)

   رد المحتار میں مذکورہ حدیث کے تحت ہے”قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب وإسناده حسن“ ترجمہ: علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ نے فرمایا:جتنی بھی احادیث اس باب میں وارد ہوئیں،یہ حدیث ان سب میں بہتر ہے اور اس کی سند حسن ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الحظر والاباحۃ،ج 6،ص 417،دار الفکر، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم