Azbah Hamail aur Baiza Naam Ke Mutaliq Wazahat

عذبہ، حمائل اوربیضاء ناموں کے متعلق وضاحت

مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1865

تاریخ اجراء:05محرم الحرام1445ھ/24جولائی2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   ۔۔عَذْبَہ۔۔حَمَائِل۔۔۔بَیضَاء،،ان میں سے کونسا اپنی بیٹی کا نام رکھنا چاہئے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   لغت کے اعتبار سے عَذبَہ(ذال ساکن کے ساتھ) کے معنی پاکیزہ خوشگوار پانی  کے ہیں۔

    اور حَمَائِل کے مختلف معانی ہیں ،جن میں ایک معنی گلے میں ڈالنے کی چیز ،تلوار کا پرتلا وغیرہ ہیں۔

    جبکہ بَیضَاء کے معنیٰ ہیں:" روشن،سفید  ۔"

   آپ اپنی بیٹی کا نام بیضاء رکھیں ،یہ نبی پاک صلی  اللہ علیہ وسلم کی پیاری صحابیہ رضی اللہ تعالی عنہا کا نام ہے ۔

   لسان العرب میں ہے :”عذب: العَذْبُ مِنَ الشَّرابِ و الطَّعَامِ: كُلُّ مُسْتَسَاغٍ. و العَذْبُ: الماءُ الطَّيِّبُ. ماءةٌ عَذْبَةٌ و رَكِيَّة عَذْبَةٌ. وَ فِي الْقُرْآنِ: هَذَا عَذْبٌ فُراتٌ “ترجمہ:عذب ہر اس کھانے پانی کو کہاجاتا ہے جو بآسانی گلے سے اتر جائے اور العذب پاکیزہ پانی کہلاتا ہے کہاجاتا ہے پاکیزہ پانی اور پاکیزہ مشکیزہ اور قرآن میں ہے :یہ میٹھی نہر ہے ۔      (لسان العرب،ج1،ص 583،العین المھملہ،دار صادر)

   مختار الصحاح للرازی میں ہے :”والمِحمَل بوزن المرجل علاقة السيف وهو الذي تلقده المتقلد وكذا الحمالة بالكسر والجمع الحمائل بالفتح “ترجمہ:اور محمل مرجل کے وزن پر ہے یہ تلوار کا پرتلا ہے اور  یہ وہ ہے جس کو لٹکانے والا شخص گلے میں لٹکاتا ہے اور اسی طرح حمالہ (حاء کے کسرہ کے ساتھ )ہے اور اس کی جمع فتح کے ساتھ حمائل ہے ۔(مختار الصحاح للرازی،باب الحاء،ج1،ص 167،مکتبہ لبنان ناشرون)

   فیروز اللغات میں ہے :حمائل (حَ۔ ما۔ اِل) (ع۔ا۔ مث) (1): گلے میں ڈالنے کی چیز۔ پر تلا تلوار کا (2): چھوٹی تقطیع کا قرآن شریف جسے گلے میں لٹکا سکیں (3): ایک زیور‘‘۔(فیروز اللغات،ص609،فیروز سنز) 

   فیروز اللغات میں ہے :”بیضاء۔۔روشن ،سفید“۔(فیروز اللغات،ص256،فیروز سنز)

   صحابیات طیبات کے ناموں میں ”البیضاء الفھریۃ“ کا ذکر بھی کیا گیا ہے ۔رضی اللہ تعالی عنہن۔(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج8،ص54،مطبوعہ: بیروت)

   مرآۃ میں ہے ” اچھے نام کا اثر نام والے پر پڑتا ہے،اچھا نام وہ ہے جو بے معنی نہ ہو جیسے بدھوا،تلوا وغیرہ اور فخر و تکبر نہ پایاجائے جیسے بادشاہ،شہنشاہ وغیرہ اور نہ برے معنی ہوں جیسے عاصی وغیرہ۔بہتر یہ ہے کہ انبیاء کرام یا حضور علیہ السلام کے صحابہ عظام،اہلبیت اطہار کے ناموں پر نام رکھے جیسے ابراہیم و اسمعیل،عثمان،علی،حسین و حسن وغیرہ عورتوں کے نام آسیہ فاطمہ،عائشہ وغیرہ اور جو اپنے بیٹے کا نام محمد رکھے وہ ان شاء اﷲ بخشا جائے گا اور دنیا میں اس کی برکات دیکھے گا “۔(مرآۃ المناجیح،ج5،ص 30،ضیاء القرآن، پبلیکیشنز،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم