Aurat ka Naam "Rasool" Rakhna

عورتوں کا نام"رسول" رکھنا

مجیب:ابو شاہد مولانا محمد ماجد علی مدنی

فتوی نمبر:WAT-3281

تاریخ اجراء:16جمادی الاولیٰ1446ھ/19نومبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   عورتوں کا"رسول"نام رکھنا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مرد ہو یا عورت دونوں کے لئے رسول نام رکھنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ یہ نام رکھنے میں اپنے آپ کو رسول کہنااورکہلواناہے،اگرچہ یہاں نام رکھنے یا پکارنے والے اسے رسول نہیں مانتے،اس لئے کفر کا حکم بھی نہیں،  لیکن ظاہری طور پہ اسے رسول کہہ کر پکارا جارہا ہے،اور کسی غیر رسول کو اس طرح پکارنا بھی  ہرگز جائز نہیں۔  

   امامِ اہلسنت سیدی اعلی  حضرت رحمہ اللہ اس مسئلے کی تفصیل کرتے ہوئے فتاوی رضویہ میں تحریر فرماتے ہیں: ”محمدنبی، احمدنبی، نبی احمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وآلہٖ وسلم  پربے شمار درودیں، یہ الفاظ کریمہ حضور ہی پرصادق اور حضورہی کوزیباہیں، افضل صلوات اﷲ واجل تسلیمات اﷲ علیہ وعلٰی آلہٖ۔ دوسرے کے یہ نام رکھناحرام ہیں کہ ان میں حقیقۃً ادعائے نبوت(نبوت کا دعوی) نہ ہونامسلم ورنہ خالص کفرہوتا۔ مگرصورت ادعاء ضرور ہے اور  وہ بھی یقینا حرام ومحظور ہے۔ اور یہ زعم کہ اعلام(ناموں) میں معنی اول ملحوظ نہیں ہوتے، نہ شرعا مسلم نہ عرفا مقبول۔ معنی اول مراد نہ ہونے میں شک نہیں مگرنظر سے محض ساقط ہونا بھی غلط ہے، احادیث صحیحہ کثیرہ سے ثابت کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وآلہٖ وسلم نے بکثرت اسماء جن کے معنی اصلی کے لحاظ سے کوئی برائی تھی تبدیل فرمادئیے۔“(فتاوی رضویہ، ج24، ص677،678، رضا فا ؤنڈیشن، لاہور)

   صدر الشریعہ  مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ اپنی کتاب"  بہار شریعت"   میں تحریر فرماتے ہیں:”محمد نبی، احمدنبی، محمد رسول، احمد رسول، نبی الزمان نام رکھنا بھی ناجائز ہے، بلکہ بعض کا نام نبی اﷲ بھی سنا گیا ہے، غیر نبی کو نبی کہنا ہر گز ہرگز جائزنہیں ہوسکتا۔

   تنبیہ:اگر کوئی یہ کہے کہ ناموں میں اصلی معنی کا لحاظ نہیں ہوتا، بلکہ یہاں تو یہ شخص مراد ہے اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو شیطان ابلیس وغیرہ اس قسم کے ناموں سے لوگ گریز نہ کرتے اور ناموں میں اچھے اور برے ناموں کی دو قسمیں نہ ہوتیں اور حدیث میں نہ فرمایا جاتا کہ اچھے نام رکھو، نیز حضور اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے برے ناموں کو بدلا نہ ہوتا کہ جب اس اصلی معنی کا بالکل لحاظ نہیں تو بدلنے کی کیا وجہ۔“(بہار شریعت، ج3، حصہ16، ص605، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   نیز کسی  بچی کا نام رکھنا ہے تو اس کےلیے بہتر یہ ہے کہ اس کا نام  حضرات صحابیات وتابعیات وغیرہ رضوان اللہ  تعالی عنہن  میں سے کسی کے نام پررکھ لیجیے،مثلاعائشہ،میمونہ،عاتکہ،جویریہ وغیرہ کہ حدیث پاک میں اچھوں کے نام پرنام رکھنے کی ترغیب ارشادفرمائی گئی ہے اور اس کی وجہ سے نام کی برکت اور ان بزرگ ہستیوں کی برکت بھی شامل حال ہو گی۔

   الفردوس بماثور الخطاب میں ہے:”تسموا بخياركم“ ترجمہ:اچھوں کے نام پر نام رکھو۔(الفردوس بماثور الخطاب، جلد2، صفحہ58، حدیث2329، دار الكتب العلمية، بيروت)

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”بچہ کا اچھا نام رکھا جائے۔ ہندوستان میں بہت لوگوں کے ایسے نام ہیں، جن کے کچھ معنی نہیں یا اون کے برے معنی ہیں، ایسے ناموں سے احتراز کریں۔ انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اسمائے طیبہ اور صحابہ و تابعین و بزرگان دِین کے نام پر نام رکھنا بہتر ہے، امید ہے کہ اون کی برکت بچہ کے شاملِ حال ہو۔“(بھار شریعت، جلد3،حصہ15، صفحہ356، مکتبۃالمدینہ، کراچی)

   مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:”اچھے نام کا اثر،نام والے پر پڑتا ہے۔۔۔بہتر یہ ہے کہ  انبیاء کرام یا حضور علیہ السلام کے صحابہ عظام ، اہل بیت اطہار کے  ناموں پر نام رکھے۔ جیسے ابراہیم  و اسماعیل، عثمان ، علی، حسین و حسن وغیرہ۔ عورتوں کے نام آسیہ، فاطمہ، عائشہ  وغیرہ اور جو اپنے بیٹے کا نام محمد رکھے وہ ان شاء اللہ بخشا جائے گا اور دنیا  میں اس کی برکات دیکھے گا۔(مرآۃ المناجیح، ج5، ص30، نعیمی کتب خانہ،گجرات)

   نوٹ:ناموں کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لیے دعوتِ اسلامی کے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ”نام رکھنے کے احکام“ پڑھیں۔ اس میں بچوں اور بچیوں کے بہت سے اسلامی نام بھی لکھے ہوئے ہیں،وہاں سے دیکھ کر کوئی سا بھی اچھا نام رکھا جا سکتا ہے۔  نیچے دئے گئے لنک سے یہ کتاب ڈاؤن لوڈ بھی کی جا سکتی ہے۔

https://www.dawateislami.net/bookslibrary/ur/naam-rakhnay-kay-ahkam

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم