Arham Naam Rakhna Kaisa?

ارحم نام رکھنا کیسا ؟

مجیب:مفتی ہاشم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Lar-10228

تاریخ اجراء:17ربیع الثانی1442ھ/03دسمبر2020ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتےہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ بیٹے کا نام ’’ارحم‘‘رکھنا جائز ہے یا نہیں؟اس کے  متعلق رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    شرعی طور پر ’’ارحم‘‘ نام رکھنا جائز ہے کہ ممنوع ہونے کی کوئی وجہ نہیں، کیونکہ نہ یہ ان اسماء میں سے ہے جو اللہ تعالی  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے ساتھ خاص ہوں،نہ یہ بے معنی ہے ،نہ  اس کے معنی برےو مذموم ہیں ،نہ فخر وتکبر پر مشتمل ہے،نہ اس میں ممنوعہ  تزکیہ اور خود ستائی ہے ،نہ شریعت مطہرہ میں اس کی ممانعت  وارد ہوئی ہے۔

    ارحم کا اطلاق غیرخدا پر بھی جائز ہے  ،چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :”ما رأيت أحدا كان أرحم بالعيال من رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم“ترجمہ:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کرکسی ایک کو بھی عیال پر رحم کرنے والا نہیں دیکھا۔

(صحیح مسلم، باب رحمته صلى اللہ عليه وسلم الصبيان والعيال،جلد4،صفحہ 1808، دار إحياء التراث العربي، بيروت)

    کنزالعمال میں ہے:”عن أسلم قال: كان عمر بن الخطاب إذا ذكر النبى صلى اللہ عليه وسلم بكى، قال: كان رسول اللہ  صلى اللہ عليه وسلم أرحم الناس بالناس“ترجمہ:حضرت اسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب  نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتے تو رو پڑتے اور فرماتے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں پر ،سب لوگوں سے بڑھ کر رحم کرنے والے تھے۔

 (کنزالعمال،مسند عمر،فضائل متفرقہ،الجزء12،صفحہ419،رقم الحدیث 35464، مؤسسة الرسالة)

    حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی احادیث میں ’’ارحم ‘‘ کہاگیا ہے۔سنن ترمذی و سنن ابن ماجہ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:”قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم:”أرحم أمتي بأمتي أبو بكر“ترجمہ:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میری امت میں سے میری امت پر سب سے زیادہ رحم کرنے والے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  ہیں۔

(سنن ترمذی،ابواب المناقب، باب مناقب معاذ بن جبل، وزيد بن ثابت۔الخ۔جلد5،صفحہ664،مطبوعہ مصر)

    حضرت موسیٰ وخضر علی نبینا وعلیہما الصلوۃ والسلام    کے واقعہ کی تفسیر  میں ایک بچے پر بھی’’ ارحم ‘‘ کا اطلاق کیا گیا ہے،چنانچہ صحیح البخاری میں ہے :”﴿وأقرب رحما﴾(الكهف 81) هما به أرحم منهما بالأول،الذي قتل خضر“ترجمہ:(ان کا رب اس سے زیادہ مہربانی میں  قریب عطا کرے)یعنی ان والدین کو پہلے بچےجس کو حضرت خضر علیہ السلام نے قتل کردیا تھااس  سے زیادہ ان پر  رحم کرنے والا بچہ عطاکرے ۔

(صحیح البخاری،كتاب تفسير القرآن،جلد6،صفحہ89،دارطوق النجاۃ)

    مشہور محدث امام شعبہ بن حجاج رحمۃاللہ علیہ  کے متعلق تاریخ بغداد میں  ہے:”النضر بن شميل قال:ما رأيت أرحم بمسكين من شعبة“ترجمہ:نضر بن شمیل رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:”میں نے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو مسکین پرامام شعبہ سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہو۔“

(تاریخ بغداد وذیولہ،شعبہ بن حجاج بن الورد،الجزء 9،صفحہ261،دارالكتب العلمية، بيروت)

    مشہور محدث وفقیہ امام اوزاعی رحمۃاللہ علیہ  کے متعلق ابواسحاق الفزاری فرماتے ہیں:”مارأيت احدا كان أشد تواضعا من الأوزاعي ولا أرحم بالناس منه“ترجمہ:میں نے کوئی ایک شخص بھی نہیں دیکھاجو امام اوزاعی رحمۃاللہ علیہ سے بڑھ کر عاجزی کرنے والا ہو اور نہ ان سے بڑھ کر لوگوں پر رحم کرنے والا دیکھا ہے۔                                                           

(تاریخ دمشق لابن عساکر،الجزء35،صفحہ173،دارالفکر)

    اللہ تعالیٰ  کی مخصوص صفات کے علاوہ جو صفات قرآن مجید میں بیان ہوئی ہیں، ان کے ساتھ نام رکھنا جائز ہے ،چنانچہ ردالمحتار میں ہے:”في التتارخانية عن السراجية التسمية باسم يوجد في كتاب اللہ تعالى كالعلي والكبير والرشيد والبديع جائزة إلخ،“ ترجمہ:فتاوی تتارخانیہ میں فتاوی سراجیہ سے منقول ہے کہ ایسے نام رکھناجواﷲ تعالیٰ کی کتاب میں( اﷲ تعالی کی صفات کے طورپر )پائے جاتے ہیں جیسے علی، کبیر، رشید اوربدیع جائزہیں۔ الخ۔

                  (ردالمحتار،کتاب الکراھیۃ،فصل فی البیع،جلد6،صفحہ417،مطبوعہ بیروت)

    اوربندوں کے حق میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسرے معنی مرادہوں گے،چنانچہ درمختار میں ہے”وجاز التسمية بعلي ورشيد من الأسماء المشتركة ويراد في حقنا غير ما يراد في حق اللہ تعالى“ترجمہ:علی، رشیدوغیرہ اسماء مشترکہ کے ساتھ کسی کا نام رکھناجائز ہےاور ہمارے حق میں وہ معنی مراد لیاجائے گا، جواﷲ تعالیٰ کے حق میں مراد نہیں لیاجاتا۔

 (درمختار،کتاب الکراھیۃ،فصل فی البیع،جلد6،صفحہ417،مطبوعہ بیروت)

    مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃاللہ علیہ مراۃ المناجیح میں فرماتے ہیں:”بے معنی یا برے معنی والے نام ممنوع ہیں ۔“

(مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح،کتاب الاداب ،باب الاسامی ،جلد6، صفحہ408، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

    مفتی صاحب ایک دوسری جگہ ایک حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:”نہ ذلت کے نام رکھو، نہ فخروتکبر کے۔“

(مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح،کتاب الاداب ،باب الاسامی ،جلد6،صفحہ409، نعیمی کتب خانہ ،گجرات)

    وہ نام جن میں تزکیہ اورخودستائی ہو، جس سے مسمی (جس کا نام ہے اس )کا دین میں معظم یا  دین پر معظم ہونامعلوم ہو وہ ممنوع ہیں۔جن میں ایسا نہیں وہ ممنوع نہیں،جیسا کہ درج ذیل عبارات فقہاء سے واضح ہے کہ جہاں پر انہوں نے تزکیے اور خود ستائی والےناموں کی  ممانعت فرمائی، وہاں پرانہی اسماء کی ممانعت  ذکرکی جن میں دینی اعتبار سے تزکیہ اور خود ستائی تھی، جبکہ ارحم میں دینی اعتبار سے کوئی تزکیہ نہیں ہے،لہذا اس کی ممانعت نہیں۔

    ردالمحتار میں ہے:”ويؤخذ۔۔من قوله ولا بما فيه تزكية المنع عن نحو محيي الدين وشمس الدين مع ما فيه من الكذب“ترجمہ:مصنف کے قول ’’اور وہ نام  نہ رکھا جائے،جس میں خود ستائی ہو‘‘سے یہ اخذ کیا جائے گا کہ ممانعت مثل محی الدین وشمس الدین نام رکھنے میں ہے اور ساتھ ہی اس میں جھوٹ بھی ہے۔  

(ردالمحتار،کتاب الکراھیۃ،فصل فی البیع،جلد6،صفحہ418،مطبوعہ بیروت)

    عارف باللہ   حضرت علامہ شیخ سنان رحمۃاللہ علیہ ’’تبیین المحارم ‘‘میں فرماتے ہیں:”وقال ابومنصور:وقول  الرجل انا مومن لیس بتزکیۃ لنفسہ بل اخبار عن شیء  اکرم بہ والتزکیۃ ھی ان یری کونہ برا تقیاً من نفسہ ولان الایمان لہ حد  معلوم لایتفاوت وکل عبادات لھا حد معلوم فلامدح فمن ادبھا  واخبر بادائھا۔۔واما   قول :ھو بر تقی او حبیب اللہ فھو بذلک یترفع علی الناس ویفتخر علیھم فان کان صادقاً فھو غفلۃ۔۔وان کان کاذباً فھو مستحق بالعتاب واللعن“ترجمہ:اور ابو منصور رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا:اور بندے کا کہنا کہ میں مومن ہوں ،یہ تزکیہ نفس نہیں ہے ،بلکہ اس چیز کی خبر دینا ہے،جس کے ذریعے  اسے عزت  دی گئی ہےاور تزکیہ تو یہ ہے کہ  انسان خود کو نیکوکار،متقی پرہیزگار خیال کرے۔کیونکہ ایمان کی حد معلوم ہے، وہ اس سے متفاوت نہیں ہوتااور ہر وہ عبادت جس کی حد معلوم ہو،تواسے جس نے ادا کیا اور اس کی ادائیگی کی خبر دی،تو اس میں کوئی مدح(تزکیہ نفس)نہیں اور بہرحال بندے کاکہنا کہ وہ نیکوکار،متقی پرہیزگار یا حبیب اللہ ہے اور وہ اس کے ذریعے لوگوں پر بلندی چاہتا ہے اور ان پر فخر کرتا ہے، تو اگر وہ واقعی اپنے قول میں سچا ہے تو اس کا یہ کہنا غفلت ہے اور اگر وہ اپنے قول میں ہی جھوٹا ہے، تو عتاب ولعن کا مستحق ہے۔  

     (تبیین المحارم،باب تزکیۃ المرء نفسہ  او نفس غیرہ،صفحہ77،مخطوطہ، غیر مطبوع)

    اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃاللہ علیہ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں:”نظام الدین، محی الدین، تاج الدین اور اسی طرح وہ تمام  نام جن میں مسمی  کا معظم فی الدین بلکہ  معظم علی الدین ہونا نکلے جیسے شمس الدین،  بدرالدین،  نورالدین،  فخرالدین، شمس الاسلام،  بدرالاسلام  وغیرذٰلک، سب کوعلماء اسلام  نے سخت ناپسند  رکھا اورمکروہ  وممنوع رکھا، اکابردین قدست اسرارھم کہ امثال اسلامی سے مشہور ہیں، یہ  ان کےنام نہیں القاب ہیں کہ ان مقامات رفیعہ تک وصول کے بعد مسلمین نے توصیفاانہیں ان لقبوں سے یاد کیا، جیسے شمس الائمہ حلوائی ،فخرالاسلام بزدوی،تاج الشریعہ، یونہی محی الحق والدین حضور پر نور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ۔“

            (فتاوی رضویہ ،جلد24،صفحہ683،رضافاؤنڈیشن، لاھور)

    اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃاللہ علیہ فتاوی رضویہ میں  ایک دوسرے مقام پرفرماتے ہیں:”پھر منیرالدین وامثالہ میں برّہ سے کہیں زیادہ تزکیہ ہے،نکو کاری ایک عام بات ہے کہ فساق کے سواسب کو حاصل ۔ مگر اس مرتبہ عظیمہ پرپہنچنا کہ دین ان صاحب کے نور سے منورہوجائے سخت مشکل ۔ تو ایسا شدید تزکیہ نفس کیونکر جائز ہوگا بخلاف سعید وامثالہ کہ ان کا حاصل صرف مسلم ہے ہر مسلمان سعید ہے اورہر سعید مسلمان ہے ، آیہ کریمہ﴿فمنھم شقی وسعید﴾ (ان میں کوئی بدبخت اورکوئی نیک بخت ہے ۔ت ) میں دو ہی قسمیں ارشاد ہوئیں اوران سے کافر مومن مراد ہوئے، تو سعید نام رکھنا ایسا ہی ہے جیسے مسلم اوراس میں تزکیہ نہیں ۔ نظر بحال بیان واقع ہے اورنظر بمآل تفاول ۔ واللہ تعالی  اعلم۔“

(فتاوی رضویہ،جلد30،صفحہ78،رضافاؤنڈیشن، لاھور)

    صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:”ایسے نام جن میں تزکیہ نفس اور خود ستائی نکلتی ہے، ان کو بھی حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے بدل ڈالا برہ کا نام زینب رکھا اور فرمایاکہ ’’اپنے نفس کا تزکیہ نہ کرو۔‘‘شمس الدین، زین الدین، محی الدین، فخر الدین، نصیر الدین، سراج الدین، نظام الدین، قطب الدین وغیرہا اسما جن کے اندر خود ستائی اور بڑی زبردست تعریف پائی جاتی ہے نہیں رکھنے چاہیے۔   رہا یہ کہ بزرگانِ دین وائمہ سابقین کو ان ناموں سے یاد کیا جاتا ہے تو یہ جاننا چاہیے کہ ان حضرات کے نام یہ نہ تھے، بلکہ یہ ان کے القاب ہیں کہ جب وہ حضرات مراتب علیہ اور مناصب جلیلہ پر فائز ہوئے تو مسلمانوں نے ان کو اس طرح کہا اور یہاں ایک جاہل اور ان پڑھ جو ابھی پیدا ہوا اور اس نے دین کی ابھی کوئی خدمت نہیں کی اتنے بڑے بڑے الفاظ فخیمہ(بزرگی والے الفاظ)سے یاد کیا جانے لگا۔“

 (بھارشریعت،جلد3،حصہ 16،صفحہ604،مکتبۃالمدینہ ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم