Akash Naam Rakhna Kaisa ?

آ کاش نام رکھنا کیسا؟

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

فتوی نمبر: Nor-11841

تاریخ اجراء: 18ربیع الاول 1443 ھ/25اکتوبر 2021  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارےمیں کہ میں نے اپنے بیٹے کانام آکاش رکھا ہے، کیایہ نام رکھنا، جائز ہے؟ بعض لوگ اس نام سے منع کرتےہیں کہ یہ ہندوؤں والا نام ہے ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ’’آکاش‘‘سنسکرت زبان کا لفظ ہے،جس کامعنی آسمان ،حد نگاہ،خلا، زمین سے آسمان تک کافاصلہ وغیرہ ہے ،ان معانی کےاعتبار سے یہ نام رکھنا ، ناجائز نہیں ہے، لیکن یہ لفظ نام کےطورپر مسلمانوں میں مستعمل بھی نہیں ہے،یہ ہندوؤں میں معروف ہے۔اس لیے بہتریہ ہےکہ آ کاش نام نہ رکھا جائے، بلکہ ایسا نام رکھنا چاہیےجومعنی کےاعتبار سے اچھا اور مسلمانوں میں معروف ہو، کیونکہ پیارے نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے اچھے نام رکھنے کی ترغیب ارشاد فرمائی ہے اور علمائے کرام بھی ایسے نام رکھنےسے منع فرماتےہیں جو قرآن و حدیث میں موجود نہ ہوں اورنہ ہی مسلمانوں میں مستعمل ہو ۔

   حدیث پاک کی مشہورکتاب جامع صغیرمیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سےمروی ایک حدیث ہے:” حق الولد على والده أن يحسن اسمه ويحسن موضعه ويحسن أدبه“یعنی اولادکا باپ پر یہ حق ہےکہ باپ ان کا اچھا نام رکھے ،انہیں اچھی جگہ رکھے اور اچھا ادب سکھائے۔ (جامع صغیر مع التیسیر ، جلد1، صفحہ350، بیروت)

   اسی طرح کی ایک حدیث کی شرح کرتےہوئے علامہ عبدالرؤوف مناوی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:’’ فلا يسميه باسم مستكره كحرب ومرةوحزن قال صاحب القاموس في سفر السعادة : أمر الأمة بتحسين الأسماء “یعنی:والد اپنے بچے کا برانام نہ رکھے،جیسے حرب ،مرہ اورحزن،اور صاحب قاموس نے سفرالسعادۃ میں فرمایاکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو اچھے نام رکھنے کا حکم دیا۔ (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، جلد03، صفحہ 394،مطبوعہ مصر)

   فرہنگ آصفیہ میں آکاش کامعنی لکھاہے :”حد نگاہ ،انگریزی (sky)،زمین سے آسمان تک کا عرصہ،ہوا سا باریک اور ہلکا مادہ جو زمین اور آسمان کے درمیان بھراہواہو،ہوائےلطیف ،ہندوؤں کے نزدیک پانچواں عنصر۔“ (فرھنگ آصفیہ ،جلد 01،صفحہ189،مطبوعہ اردوسائنس بورڈ،لاھور)

   فتاویٰ عالمگیری میں ہے : وفي الفتاوى التسمية باسم لم يذكره اللہ تعالى في عباده ولا ذكره رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ولا استعمله المسلمون تكلموا فيه والأولى أن لا يفعل كذا في المحيط‘‘یعنی فتاویٰ میں ہےکہ ایسانام رکھنا جس کا ذکر اللہ پاک نے اپنے بندوں میں نہ کیاہو ،اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکرکیا ہواور مسلمانوں میں مستعمل بھی نہ ہو،تو علماء نے ایسانام رکھنےکےمتعلق کلام کیاہےاور بہتریہ ہےکہ ایسا نام نہ رکھا جائے۔اسی طرح محیط البرھانی میں موجود ہے۔ (فتاویٰ ھندیہ،جلد05،صفحہ365،مطبوعہ پشاور)

   مفتی امجدعلی اعظمی علیہ الرحمۃ بہار شریعت میں فرماتے ہیں :”ایسا نام رکھنا جس کا ذکرنہ قرآن میں آیاہونہ حدیثوں میں ہو ،نہ مسلمانوں میں ایسانام مستعمل ہو،اس میں علماء کواختلاف ہےبہتریہ ہےکہ نہ رکھے۔(بھار شریعت،جلد03، صفحہ603،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم