Shohar Ka Nifas Ki Halat Mein Biwi Se Humbistari Karna Kaisa ?

شوہر کا حیض و نفاس کی حالت میں بیوی سے ہم بستری کرنا کیسا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12435

تاریخ اجراء:        01ربیع الاول1444 ھ/28ستمبر2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی کے یہاں بچہ پیدا ہوا اور عورت کو نفاس کا خون آرہا ہو، اس حالت میں شوہر کاصحبت کرنا کیسا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حالت نفاس یا حالت حیض  میں صحبت کرنا تو دور کی بات، شوہر کے لئے عورت کے ناف سے گھٹنے تک کے حصے کو اپنے کسی بھی عضو سے بلاحائل چھونا، چاہے شہوت سے  ہو یا بغیر شہوت کے ہو، بہر صورت ناجائز ہے۔البتہ ناف سے گھٹنے تک کے حصے کو ایسے حائل سے چھونا ، جائز ہے جس سے  بدن کی گرمی محسوس نہ ہو، یونہی ناف سےاوپر اورگھٹنے سےنیچے چھونے یا کسی طرح کا نفع لینے میں کوئی حرج نہیں۔

   تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:”(وقربان ما تحت إزار) يعني ما بين سرة وركبة ولو بلا شهوة، وحل ما عداه مطلقاً“یعنی ناپاکی کی حالت میں عورت کے  ناف سے لے کر گھٹنوں کے مابین حصے سے قربت حاصل کرنا اگر چہ  بلا شہوت ہو،جائز نہیں۔  اس کے علاوہ حصے کو مطلقاً چھونا جائز ہے خواہ شہوت ہو یا نہ ہو۔

    (قوله يعني ما بين سرة وركبة)کے تحت رد المحتار  میں ہے:”فيجوز الاستمتاع بالسرة وما فوقها والركبة وما تحتها ولو بلا حائل ، وكذا بما بينهما بحائل بغير الوطء “یعنی ناف اور اس کے اوپر یونہی گھٹنے اور اس کے نیچے کے حصے سے فائدہ حاصل کرنا شرعاً جائز ہے اگر چہ بلا حائل ہو، اسی طرح ناف سے لے کر گھٹنوں تک کے حصے کو بغیر وطی کے ایسے کسی حائل کے ساتھ چھونا، جائز ہے( جس سے  بدن کی گرمی محسوس نہ ہو)۔ (تنویر الابصار مع الدر المختار، کتاب الطھارۃ، ج 01، ص 534، مطبوعہ کوئٹہ)

   بدائع الصنائع میں ہے:يحرم القربان فی حالتی الحيض والنفاس یعنی: حیض و نفاس کی حالت میں جماع  حرام ہے ۔(بدائع الصنائع، کتاب الطھارۃ، ج01،ص 167،دار الحديث،  القاهرة)

   فتاوٰی رضویہ میں ہے:”کلیہ یہ ہےکہ حالتِ حیض میں و نفاس میں زیرِناف سے زانو تک عورت کے بدن سے بلاکسی ایسے حائل کے جس کے سبب جسمِ عورت کی گرمی اس کے جسم کو نہ پہنچے ،تمتع جائزنہیں یہاں تک کہ اتنے ٹکڑے بدن پر شہوت سے نظر بھی جائز نہیں اور اتنے ٹکڑے کا چھونا بلاشہوت بھی جائز نہیں اور اس سے اوپرنیچے کے بدن سے مطلقاً تمتع جائز یہاں تک کہ سحقِ ذکر کر کے انزال کرنا۔“(فتاوٰی رضویہ،ج04،ص353،رضافاؤنڈیشن، لاھور)

   حیض  ونفاس کے احکام بیان کرتے ہوئے صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجدعلی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:” ہمبستری یعنی جماع اس حالت میں حرام ہے۔۔۔۔۔اس حالت میں ناف سے گھٹنے تک عورت کے بدن سے مرد کا اپنے کسی عُضْوْ سے چھونا ،جائز نہیں جب کہ کپڑا وغیرہ حائل نہ ہو ۔ شَہوت سے ہویا بے شَہوت اور اگر ایسا حائل ہو کہ بدن کی گرمی محسوس نہ ہوگی تو حَرَج نہیں۔ ناف سے اوپر اور گھٹنے سے نیچے چھونے یا کسی طرح کا نفع لینے میں کوئی حَرَج نہیں۔ یوہیں بوس وکنار بھی جائز ہے۔“(بہارشریعت،ج 01 ، صفحہ 382، مکتبۃ المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

   مفتی امجد علی اعظمی  علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ”حیض و نفاس میں نکاح ہوسکتا ہے یا نہیں؟ “اس کے جواب میں ہے:”حیض یا نفاس میں نکاح صحیح ہے مگر جب تک پاک نہ ہولے جماع حرام۔“ (فتاوٰی امجدیہ، ج 02، ص 55، مکتبہ رضویہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم