مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی
فتوی نمبر: WAT-3153
تاریخ اجراء:03ربیع الثانی1446ھ/07اکتوبر2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا سوتیلے باپ سے پردہ لازم ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
کسی لڑکی کا سوتیلا باپ،اگر اس لڑکی کی ماں کے ساتھ،کوئی ایسافعل کرے کہ جس سے حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے مثلا ہمبستری کرنایافقط شہوت سے چھونایابوسہ لیناوغیرہ یانکاح کے بعد ان کے درمیان کم ازکم خلوت صحیحہ ہوجائےتواس سےوہ لڑکی ،اپنے سوتیلے باپ پرہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہے ،اب اس کے بعداس لڑکی کواپنے سوتیلے باپ سے پردہ کرنے اورنہ کرنے دونوں کااختیارہوتاہے ۔ البتہ! اگر وہ جوان ہو تو اس سے پردہ کر لینا مناسب ہے۔ بلکہ اگر خدانخواستہ کسی فتنے کا اندیشہ ہو توایسی صورت میں اس سے پردہ کرنالازم ہے۔
نوٹ:خلوت صحیحہ سے مرادیہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان اس طرح تنہائی ہوجائے کہ دونوں کے درمیان ہمبستری سے نہ کوئی طبعی مانع ہو،نہ حسی اورنہ شرعی۔
مانع حسّی: جیسے مرض کہ شوہر بیمار ہے تو مطلقاً خلوت صحیحہ نہ ہوگی اور زوجہ بیمار ہو تو اس حد کی بیمار ہو کہ وطی سے ضرر کا اندیشہ صحیح ہو اورا یسی بیماری نہ ہو تو خلوتِ صحیحہ ہو جائے گی۔
مانع طبعی :شوہر اور عورت کے درمیان کسی تیسرے کا ہونا،جوسمجھ دارہو، اگرچہ وہ سوتا ہو یا نابینا ہو اور اگر وہ شخص بے ہوشی میں ہے تو خلوت ہو جائے گی۔
مانع شرعی:مثلاعورت کا حیض یا نفاس کی حالت میں ہونا یاان میں سے کسی کارمضان کااداروزہ ہونا،یانماز فرض میں ہونایااحرام کی حالت میں ہونا۔
قرآن مجید میں اللہ عزوجل ارشادفرماتا ہے:﴿ وَ رَبَآىٕبُكُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآىٕكُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ٘- فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ ﴾ترجمہ کنز الایمان: اور ان کی بیٹیاں جو تمہاری گود میں ہیں اُن بیبیوں سے جن سے تم صحبت کر چکے ہو تو پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو ان کی بیٹیوں میں حرج نہیں۔(پارہ 4،سورۃ النساء،آیت 23)
الاختیارلتعلیل المختارمیں ہے " ولا تحرم البنت حتى يدخل بالأم"ترجمہ:اورسوتیلی بیٹی اس وقت تک حرام نہیں ہوتی جب تک اس کی ماں سے صحبت نہ کرلی جائے۔(الاختیارلتعلیل المختار،کتاب النکاح،فصل:محرمات النکاح،ج03،ص85،مطبوعہ:حلبی ،قاھرہ)
درمختارمیں ہے " (و) حرم المصاهرة (بنت زوجته الموطوءة۔۔)۔۔ وفي الكشاف واللمس ونحوه كالدخول عند أبي حنيفة وأقره المصنف"ترجمہ:اپنی وہ بیوی جس سے دخول ہوچکاہو،اس کی بیٹی ،مصاہرت کے رشتے کے سبب حرام ہوجاتی ہے اورکشاف میں ہے :اورچھونااوراس جیسے دوسرے کام امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ کے نزدیک دخول کی طرح ہی ہیں اورمصنف نے اسے برقراررکھاہے۔(الدرالمختارمع ردالمحتار،کتاب النکاح،فصل فی المحرمات،ج03،ص331،دارالفکر،بیروت)
فتاوی رضویہ میں امام اہلسنت علیہ الرحمۃ سوتیلی بیٹی کے ساتھ نکاح کے متعلق ایک سوال کے جواب میں ارشادفرماتے ہیں:
" اگر اس عورت سے خلوت نہ ہوئی تھی تو اس کے بعد ا س کی بیٹی سے نکاح کرسکتا ہے ورنہ حرام، اور اگر کرلیا تو جدا کردینا اور جداہونا فرض قطعی۔"(فتاوی رضویہ،ج 11،ص 454،455،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)
بہارشریعت میں ہے "اور خلوتِ صحیحہ بھی وطی ہی کے حکم ہے میں ہے یعنی اگر خلوتِ صحیحہ عورت کے ساتھ ہوگئی، اس کی لڑکی حرام ہوگئی اگرچہ وطی نہ کی ہو۔"(بہارشریعت،ج01،حصہ07،ص22،23،مکتبۃ المدینہ)
خلوت صحیحہ کی تعریف اور موانع کی اقسام کے متعلق بہار شریعت میں ہے: ”خلوتِ صحیحہ یہ ہے کہ زوج زوجہ ایک مکان میں جمع ہوں اور کوئی چیز مانع جماع نہ ہو۔ یہ خلوت (بعض احکام میں)جماع ہی کے حکم میں ہے اور موانع تین ہیں: حسّی ، شرعی ، طبعی۔
مانع حسّی جیسے مرض کہ شوہر بیمار ہے تو مطلقاً خلوت صحیحہ نہ ہوگی اور زوجہ بیمار ہو تو اس حد کی بیمار ہو کہ وطی سے ضرر کا اندیشہ صحیح ہو اورا یسی بیماری نہ ہو تو خلوتِ صحیحہ ہو جائے گی۔
مانع طبعی جیسے وہاں کسی تیسرے کا ہونا، اگرچہ وہ سوتا ہو یا نابینا ہو، یا اس کی دوسری بی بی ہو ۔۔۔ہاں اگر اتنا چھوٹا بچہ ہو کہ کسی کے سامنے بیان نہ کر سکے گا تو اس کا ہونا مانع نہیں یعنی خلوتِ صحیحہ ہو جائے گی۔ مجنون و معتوہ بچہ کے حکم میں ہيں اگر عقل کچھ رکھتے ہیں تو خلوت نہ ہوگی ورنہ ہو جائے گی اور اگر وہ شخص بے ہوشی میں ہے تو خلوت ہو جائے گی۔ اگر وہاں عورت کا کُتّا ہے تو خلوتِ صحیحہ نہ ہوگی اور اگر مرد کا ہے اور کٹکھنا ہے جب بھی نہ ہوگی ورنہ ہو جائے گی۔
مانع شرعی مثلاً عورت حیض یا نفاس میں ہے یا دونوں میں کوئی مُحرم ہو، احرام فرض کا ہو یا نفل کا، حج کا ہو یا عمرہ کا، یا ان میں کسی کا رمضان کا روزہ ادا ہو یا نمازِ فرض میں ہو، ان سب صورتوں میں خلوتِ صحیحہ نہ ہو گی اور اگر نفل یا نذر یا کفارہ یا قضا کا روزہ ہو یا نفلی نماز ہو تو یہ چیزیں خلوتِ صحیحہ سے مانع نہیں۔“(بہارشریعت، جلد2، حصہ07،صفحہ68،69، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
امام اہلسنت،امام احمدرضاخان علہ الرحمۃ پردے کے متعلق فرماتے ہیں:"اس کا ضابطہ کلیہ ہے کہ نامحرموں سے پردہ مطلقا واجب۔ اور محارم نسبی سے پردہ نہ کرناواجب اگر کریگی گنہگار ہوگی اور محارم غیر نسبی مثل علاقہ مصاہرت ورضاعت ان سے پردہ کرنا اور نہ کرنادونوں جائز۔ مصلحت وحالت پر لحاظ ہوگا۔ اسی واسطے علماء نے لکھا ہے کہ جوان ساس کو داماد سے پردہ مناسب ہے۔ یہی حکم خسر اور بہو کا ۔ اورجہاں معاذاللہ مظنہ فتنہ ہو پردہ واجب ہوجائے گا۔"(فتاوٰی رضویہ، ج 22، ص 240، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
سر کے بالوں کے بارے میں شرعی حکم
عورت کو روزہ کی حالت میں حیض یا نفاس آجائے تو کیا وہ کھا پی سکتی ہے ؟
کانچ کی چوڑیاں پہننا
محرم کے بغیر عمرے پر جانا
وضو کے بعد ناخن پالش لگانے اور آرٹیفیشل جیولری پہن کر نماز پڑھنے کا حکم
میک اَپ والے اسٹیکرز لگے ہوں تو وضو غسل کا حکم
اسلامی بہنیں سرکا مسح کیسے کریں؟
دودھ پلانے والی ماؤں کیلئے رمضان کے روزے کا حکم