Sali Ka Behnoi Se Betakallufi Karna Kaisa ?

سالی کا بہنوئی سے میل جول رکھنا کیسا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12500

تاریخ اجراء:        30ربیع الاول1444 ھ/27اکتوبر2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بالغہ عورت  اپنے بہنوئی کو بھائی سمجھ کر ان سے بات چیت کرسکتی ہے، ان سے ہاتھ ملا سکتی ہے،  ان کے سامنے بے پردہ آسکتی ہے، جبکہ بہنوئی عمر میں بڑا ہو اور اس کی  نیت بھی صاف ہو؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بہنوئی نامحرم ہے ،  خواہ وہ عمر میں بڑا ہو یا چھوٹا، بہر صورت  بالغہ یا قریب البلوغ عورت کااپنے بہنوئی سے پردہ ہے۔ لہذا عورت کا اپنے بہنوئی کو بھائی سمجھ کر پردے کی قیودات سے اپنے آپ کو آزاد سمجھنا، بے تکلفی کرنا ،ہاتھ ملانا ،اجنبی کے لئے جوحصہ ستر ہے مثلا بال گردن کلائی وغیرہ ظاہر ہوتے ہوئے اس کے سامنے آنا سخت ناجائزو حرام ہےبلکہ جوان عورت کا اجنبی مرد سے چہرے کا پردہ بھی لازم ہے۔

   چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ ”اپنی حقیقی ہمشیرہ کے شوہر سے عورت کو پردہ کرنا فرض ہے یانہیں؟“ آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ” بہنوئی کاحکم شرع میں بالکل مثل حکم اجنبی ہے بلکہ اس سے بھی زائد کہ وہ جس بے تکلفی سے آمدورفت،  نشست وبرخاست کرسکتاہے غیر شخص کی اتنی ہمت نہیں ہوسکتی لہذا صحیح حدیث میں ہے: قالوا یارسول اﷲ ارأیت الحمو قال الحمو الموت صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ ! جیٹھ، دیور، اور ان کے مثل رشتہ داران شوہر کا کیا حکم ہے۔ فرمایایہ تو موت ہیں۔(فتاوٰی رضویہ،ج17،ص237، رضا فاؤنڈیشن،  لاہور، ملخصاً)

   پردے کے حوالے سے تاکید بیان کرتے ہوئے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّؕ-ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۵۹)ترجمہ کنزالایمان:”اے نبی اپنی بیبیوں اور صاحبزادیو ں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ ان کی پہچان ہو تو ستائی نہ جائیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“(القرآن الکریم،پارہ22، سورۃ الاحزاب،آیت:59)

   صحیح بخاری شریف اور دیگر کتبِ احادیث میں قریبی نامحرم  سے پردے کی تاکید کچھ یوں مذکور ہے:”و النظم للاول ”عن عقبة بن عامر أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال " إياكم والدخول على النساء" فقال رجل من الأنصار يا رسول الله أفرأيت الحمو ؟ قال  "الحمو الموت"۔“ یعنی حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔  انصار میں سے ایک شخص  نے عرض کی یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم دیور کے متعلق ارشاد فرمایئے تو فرمایا :دیور تو موت ہے۔(صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب لا یخلون رجل۔۔۔الخ، ج 05، ص2005،دار ابن كثير، بيروت)

   مذکورہ بالا حدیث کے متعلق مراۃ المناجیح میں ہے:”یعنی بھاوج کا دیور سے بے پردہ ہونا موت کی طرح باعث ہلاکت ہے۔یہاں مرقات نے فرمایا کہ حمو سے مراد صرف دیور یعنی خاوند کا بھائی ہی نہیں بلکہ خاوند کے تمام وہ قرابت دار مراد ہیں جن سے نکاح درست ہے جیسے خاوند کا چچا ماموں پھوپھا وغیرہ ۔ اسی طرح بیوی کی بہن یعنی سالی اور اس کی بھتیجی بھانجی وغیرہ سب کا یہ ہی حکم ہے۔خیال رہے کہ دیور کو موت اس لیے فرمایا کہ عادتًا بھاوج دیور سے پردہ نہیں کرتیں بلکہ اس سے دل لگی،مذاق بھی کرتی ہیں اور ظاہر ہے کہ اجنبیہ غیر محرم سے مذاق دل لگی کسی قدر فتنہ کا باعث ہے۔  اب بھی زیادہ فتنہ دیور بھاوج اور سالی بہنوئی میں دیکھے جاتے ہیں۔(مرآۃ المناجیح، ج 05، ص 14، ضیاء القرآن پبلی کیشنز،  لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم