Masjid Ke Bahar Muttasil Jagah Mein Auraton Ka Namaz Parhne Jana

 

مسجد سے باہر متصل جگہ میں عورتیں نماز پڑھنے جا سکتی ہیں؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: FSD-8858

تاریخ اجراء: 13 شوا ل المکرم  1445 ھ / 22 اپریل 2024 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ میں نے ایک فتویٰ پڑھا ہے ، جس میں  عورتوں کو مسجد میں نماز کی ادائیگی سے منع کیا گیا ہے اور وجہ یہ لکھی ہے  کہ حضرت فاروقِ اعظم  رضی اللہ عنہ نے  اپنے دورِ خلافت میں عورتوں کو مسجد سے منع کر دیا تھا ، میرا سوال یہ ہے کہ اگر  ہم اپنے گاؤں میں عورتو ں کو مسجدکے اندر نہ بلائیں ، بلکہ  مسجد کے باہر متصل    کسی جگہ  پر وہ  امام  صاحب کی اقتدا کر کے نماز پڑھ لیں ،تو  پھر تو کوئی حرج نہیں ؟ یوں وہ مسجد میں بھی نہیں آئیں گی  اور جماعت  سے نماز بھی ادا کر لیں گی ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حکمِ شرعی یہ ہے کہ  عورتوں کے لیے کسی بھی نماز میں جماعت کی حاضری جائز نہیں ، خواہ یہ جماعت مسجد میں ہو   یا مسجد سے متصل باہر گلی میں ، میدان میں ہو یا  ہال میں، دن کی نماز ہو یا رات کی، جمعہ ہو یا عیدین یا صلاۃ التسبیح یا تراویح  کی نماز یا  عام نوافل ، خواہ عورتیں جوان ہوں یا بوڑھیاں، بہر صورت ان کا جماعت میں شرکت کرنا ناجائز  ہے ۔

      یہ کہنا کہ حضرت سیّدنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے عورتوں کو  مسجد سے منع کیا تھا ، لہٰذا مسجد کے باہر کسی جگہ عورتوں کو جماعت میں آنے کی اجازت ہونی چاہیے  ، سراسر غلط اور دین و شریعت کی حکمت سے ناواقفی ہے۔ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دورِ مبارک میں عورتوں کو مسجد میں آکر نماز ادا کرنے کی اجازت تھی ، اس وقت  بھی انہیں یہی حکم تھا کہ عمدہ لباس اور زیورات  پہن کر نہ آئیں، خوشبو لگا کر نہ آئیں، نماز ختم ہونے کے بعد مردوں سے پہلے واپس چلی جائیں۔ان پابندیوں کے ساتھ اجازت کے باوجود بھی نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یہی ترغیب ارشاد فرماتے تھے کہ عورتیں اپنے گھروں میں نماز ادا کریں ، ان کا گھر میں نماز ادا کرنا ، مسجد میں پڑھنے سے افضل ہے اور پھر گھر  کے اندر بھی کسی کمرے میں نماز پڑھنا،  صحن میں پڑھنے سے افضل ہے ، حالانکہ مسجد ِ نبوی میں نماز کی امامت ، امام الانبیاء صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خود فرماتے تھے ۔

      چنانچہ مسند احمد میں ہے :’’عن عبد اللہ بن سويد الانصاري، عن عمته أم حميد امرأة أبي حميد الساعدي، أنها جاءت النبي صلى اللہ عليه وسلم فقالت: يا رسول اللہ ، إني أحب الصلاة معك، قال: " قد علمت أنك تحبين الصلاة معي، وصلاتك في بيتك خير لك من صلاتك في حجرتك، وصلاتك في حجرتك خير من صلاتك في دارك، وصلاتك في دارك خير لك من صلاتك في مسجد قومك، وصلاتك في مسجد قومك خير لك من صلاتك في مسجدي "، قال: فأمرت فبني لها مسجد في أقصى شيء من بيتها وأظلمه، فكانت تصلي فيه حتى لقيت اللہ عز وجل ترجمہ : حضرت عبداللہ بن سوید انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ ان کی پھپھی حضرت امّ حمید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا جو ابوحمید ساعدی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی اہلیہ ہیں ، یہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر عرض  گزار ہوئیں : مجھے آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کا بہت شوق ہے، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: میں جانتا ہوں کہ تم اس چیز کو بہت پسند کرتی ہو ، لیکن تمہارا اپنے مکان کی کسی تنگ کوٹھری میں نماز پڑھنا ، کمرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور تمہارا کمرے میں نماز ادا کرنا ، صحن میں ادا کرنے سے بہتر ہے اور تمہارا گھر کے احاطے میں نماز پڑھنا اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے  اور اپنے محلے کی کسی مسجد میں نماز  ادا  کرنا ، میری مسجد ( مسجدِ نبوی ) میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ۔  حضرت عبداللہ بن سوید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ ان کی پھپھی (حضرت ام حمید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا) نے اپنے گھر کے  آخری کونے  اور زیادہ اندھیرے والی جگہ  مسجد(بیت ) بنوائی اور پھر آپ وقتِ وصال تک وہیں نماز پڑھتی رہیں۔( مسندِ احمد ، حدیث ام حمید ، جلد 45 ، صفحہ 37 ، مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ ، بیروت )

      اور ایک حدیثِ پاک میں ہے :عن عبد اللہ عن النبي صلى اللہ عليه وسلم  قال: صلاة المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها، وصلاتها في مخدعها أفضل من صلاتها في بيتها ترجمہ : حضرت عبداللہ  بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : عورت کا کمرے   میں نماز پڑھنا صحن میں پڑھنے سے افضل  ہے اور گھر کی کسی اندرونی کوٹھری میں پڑھنا،  کمرے میں پڑھنے سے افضل  ہے۔(سنن ابو داؤد ، باب ما جاء فی خروج النساء الی المسجد، جلد  1 ، صفحہ  94  ، مطبوعہ لاھور )

      نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دورِ مبارک  کے بعد جب عورتوں کے حالات و انداز بدلنا  شروع ہو گئے  ، یعنی بعض عورتیں  جماعت  میں حاضری کے لیے عمدہ لباس ، خوشبو اور زیب و زینت کا اہتمام  کرنے لگ گئیں ،  تو فتنہ و فساد کا سدِ باب کرنے کے لیے  اسلام کے دوسرے خلیفۂ راشد حضرت سیّدنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے انہیں مَردوں کی جماعت میں شرکت کرنے سے منع فرما دیا  اور یہ حکم آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے  صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی موجودگی میں جاری فرمایا ، صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان دین کا مزاج سمجھنے والے تھے، لہٰذا کسی  نے اس پر اعتراض نہ کیا ، کچھ عورتوں نے  سیّدہ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سےعرض کی کہ ہم رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانہ مبارکہ میں جماعت کے لیے  مسجد جاتی تھیں ، اب حضرت عمر  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہمیں منع کر رہے ہیں  ،حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا جو نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زوجہ ہیں  اور   مزاجِ مصطفیٰ (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو سمجھنے والی بھی  ہیں  اور اتنی بڑی عالمہ ،  مفتیہ اور مجتہدہ  ہیں کہ  آپ کے متعلق نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے  ارشاد فرمایا کہ لوگو! اپنے دین کا ایک تہائی  اس حمیرا (عائشہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا) سے سیکھو۔آپ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے ارشاد فرمایا : جو  کچھ ان عورتوں میں ظاہر ہو چکا ہے ، اگر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یہ دیکھ لیتے، تو ضرور آپ بھی  انہیں منع فرما دیتے ۔ گویا فرمانا یہ چاہتی ہیں کہ اگرچہ عورتوں کو جماعت میں حاضری سے منع فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے کیا ہے ، لیکن اس ممانعت میں  نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تائید  اور رضا شامل ہے ۔

      معلوم ہوا عورتوں کو  اصل ممانعت مسجد سے نہیں  ، اصل ممانعت نماز کے لیے گھر سے باہر  نکلنے اور باہر جا کر مَردوں کی جماعت میں شرکت  کرنے کی ہے ، خواہ یہ شرکت مسجد میں کی جائے یا مسجد سے باہر کسی دوسری جگہ میں ، کیونکہ ممانعت کا مقصد عورتوں میں پائی جانے والی خرافات اور بن سنور کر نکلنے  کی صورت میں پیدا ہونے والے فتنہ و فسا د کی روک تھا م ہے  اور  اس کا اندیشہ  مسجد و غیرِ مسجد ہر جگہ موجود ہے ۔

      یاد رہے ! حضرت  فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے جس دور میں  عورتوں کو جماعت میں شریک ہونے سے منع کیا  ، وہ  دور "خیر القرون "  یعنی امت کے بہترین و قابلِ تقلید  لوگوں یعنی صحابہ و تابعین کا دور تھا ۔ لوگ اللہ  پاک کا خوف رکھنے والے اور  پاکیزہ سوچ رکھنے والے   تھے ، شرم و حیا کا بول بالا تھا  ، اس کے باوجود سیّدہ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا کہ جو کچھ ان عورتوں میں ظاہر ہو گیا ہے ،  اس کا تقاضا یہی ہے کہ  مطلقاً منع کر دیا جائے   کہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی دیکھ لیتے ، تو منع ہی فرماتے۔ دوسری طرف آج کا  پُر فتن دور  جس میں بے حیائی ، بد نگاہی ، فتنہ و فساد ، فیشن ، نیم برہنہ لباس ، پردے و حجاب کے نام پر بھی دعوتِ گناہ دیتے رنگ برنگے چمکیلے بھڑکیلے برقعے  ،   زیب و زینت کی نمائش کرنے کے عجیب و غریب قسم کے انداز اور بن سنور  کر باہر نکلنے کا رواج  عام ہے ،آج کے دور میں اگر حضرت عمرفاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ یا حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا موجود ہوتیں،تو  ان عورتوں کے متعلق کیا  حکم جاری ہوتا ؟ لہٰذا  جب شریعتِ مطہرہ نے مسلمان عورتوں پر جمعہ و عیدین کو لازم ہی  نہیں کیا کہ اس کے لیے گھر سے نکلیں اور دیگر نمازوں کو بھی گھر میں  چھپ کر ادا کرنے  میں فضیلت زیادہ رکھی ہے  ، تو ان پر لازم ہے کہ گھر میں رہتے ہوئے اپنی عبادات بجا لائیں  اور کسی بھی نماز کے لیے مسجد و عید گاہ وغیرہ  کا رخ نہ کر یں   ۔

      عورتوں کو جماعت کی حاضری کی ممانعت کے متعلق بخاری شریف میں ہے:”عن عائشة رضي اللہ عنها، قالت:  لو ادرک رسول ﷲصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ما احدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل“ ترجمہ : حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ جو باتیں عورتوں نے اب پیدا کر لی ہیں،اگر یہ نبی پاک  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ملاحظہ فرماتے ، تو ضرور انہیں مسجد سے منع فرمادیتے،  جیسے بنی اسرائیل کی عورتیں منع کردی گئیں۔(صحیح البخاری،کتاب الاذان،باب خروج النساء الی المساجد، جلد1،صفحہ120 ، مطبوعہ کراچی )

      مذکورہ بالا حدیثِ پاک  کے تحت عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں ہے :قولہ " ما أحدث النساء " أي ما أحدثت من الزينة والطيب وحسن الثياب ونحوها (قلت) لو شاهدت عائشة رضي اللہ تعالى عنهما ما أحدث نساء هذا الزمان من أنواع البدع والمنكرات لكانت أشد إنكارا... الخ  ترجمہ : سیّدہ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کا فرمان : "  جو کچھ عورتوں نے اب پیدا کر لیا ہے " یعنی زیب و زینت ، خوشبو اور عمدہ لباس وغیرہ پہن کر مسجد آنا ۔ میں کہتا ہوں : اگر سیّدہ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا وہ ملاحظہ فرما لیتی، جو کچھ اب ہمارے زمانے کی عورتوں نے پیدا کر لیا ہے ، یعنی طرح طرح کی بدعات و خرافات ، تو اور زیادہ سختی  فرماتیں اور انہیں مسجد سے منع کر دیتیں ۔(عمدۃ القاری ، کتاب مواقیت الصلاۃ ، جلد 6 ، صفحہ 158 ،  مطبوعہ بیروت )

      علامہ بدرالدین عینی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:855ھ/1451ء) لکھتےہیں:ولهذا منع أبو حنيفة العجائز أيضاً عن الخروج إلى الظهرين لذلك المعنى. على أنه قد روي عن عائشة رضي اللہ عنها  قالت: " لو أدرك رسول اللہ ما أحدث النساء لمنعهن المسجد " الحديث  ،  لما يجئ الآن، والفتوى في هذا الزمان على عدم الخروج في حق الكل مطلقا، لشيوع الفساد،   وعموم المصيبة ترجمہ : اسی وجہ سے  امام ِ اعظم ابو حنیفہ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ نے بوڑھی عورتوں کو بھی  ظہرین یعنی دن کی نمازوں میں گھر سے نکلنے سے منع کیا ہے ، اس پر دلیل یہی سیّدہ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے مروی  روایت ہے کہ جو  کچھ ان عورتوں میں ظاہر ہو چکا ہے  ، اگر نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یہ دیکھ لیتے ، تو ضرور آپ بھی  انہیں منع فرما دیتے ۔ جیساکہ یہ روایت آگے آئے گی اور فی زمانہ فتویٰ اسی بات پر ہے کہ عورتیں مطلقاً   بالکل  بھی نماز کے لیے گھروں سے نہیں نکلیں گی ، کیونکہ فتنہ و فساد عام ہے ۔  ( شرح سنن ابی داؤد للعینی ، کتاب الصلاۃ ، جلد 3 ، صفحہ 51 ، مطبوعہ ریاض )

      تنویر الابصار و درمختار میں ہے :(‌ويكره حضورهن الجماعة) ولو لجمعة وعيد ووعظ (مطلقا) ولو عجوزا ليلا (على المذهب) المفتى به لفساد الزمان ترجمہ : اور عورتوں کا جماعت  میں شریک ہونا  مفتیٰ بہ مذہب کے مطابق فسادِ زمانہ کی وجہ سے مطلقاً مکروہ   ( تحریمی ) ہے ، اگرچہ نمازِ جمعہ و عیدین یا مجلسِ وعظ ہی ہو ، اگرچہ عورتیں  بوڑھی ہوں ، اگرچہ  رات کی نمازیں ہوں  ۔(تنویر الابصار و درمختار ، کتا ب الصلاۃ ، جلد 2، صفحہ 367 ، مطبوعہ کوئٹہ )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم