Makhsoos Ayam Mein Aurat Ka Deeni Books Ko Hath Lagane Ka Hukum?

مخصوص ایام میں عورت کا دینی کتب (تفسیر ،حدیث ،فقہ، وغیرہ ) کو چھونے کا حکم

مجیب:مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:Lar-12441

تاریخ اجراء:28ربیع الثانی1445ھ/13نومبر2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ عورت حالت حیض میں قرآن پاک کے علاوہ  بقیہ  کتب  دینیہ ،مثلا: حدیث ،تفسیر ،فقہ وغیرہ کو چھوسکتی ہے یا نہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عورت کےلیےحیض کے ایام میں حدیث ،فقہ، تصوف وغیرہ  کتب دینیہ کو بلاحائل چھونا ،مکروہ یعنی ناپسندیدہ ہے،کیونکہ کُتُبِ دینیہ میں قرآن پاک کی آیات موجود ہوتی ہیں، البتہ دینی کتابوں کو کسی کپڑے ،قلم وغیرہ  سےیا  دستانے پہن کر چھونا،بلاکراہت جائز ہے۔یہ حکم قرآن پاک کی تفسیر کے علاوہ دیگر دینی کتب کا ہے۔

   قرآن پاک کی تفسیر چھونے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر تفسیر مفصل نہ ہو یعنی اس میں آیات قرآنیہ کی مقدار تفسیر  کی بہ نسبت زیادہ ہواور اسےقرآن ہی کہاجاتا ہو،جیساکہ تفسیر خرائن العرفان ،نورالعرفان وغیرہ توایسی تفاسیر کو چھونے کا حکم قرآن پاک چھونے کی طرح ہے یعنی ایسی تفاسیر کو حیض کی حالت میں چھونا ،گناہ ہے اوراگر تفسیر مفصل  یعنی اس میں تفسیر کی مقدار آیت قرآنیہ کے مقابلے میں زیادہ ہو ،اور اس کتاب  پر لفظ قرآن کا اطلاق نہ ہو،بلکہ مستقل طور پر اس کا الگ سے نام ہو،مثلا: تفسیر کبیر ،روح البیان ،صراط الجنان وغیرہ تو ایسی مفصل  کتب تفسیر کوناپاکی کی حالت میں چھونے کا وہی حکم ہے جو تفسیر کے علاوہ بقیہ دینی کتب کو چھونے کا حکم ہے یعنی  بلاحائل چھونا، مکروہ یعنی ناپسندیدہ ہے ،اور کسی واسطے سے ہوتو بلا کراہت جائز ہے ۔

   نیزیہاں یہ بھی یاد رہے کہ حیض کے دوران کتب دینیہ اور مفصل تفاسیر میں جہاں آیت مبارکہ لکھی ہو،تو آیت کے اوپر اور عین اس کے پیچھے والے حصے کو چھونا ،جائز نہیں ہے۔

   بنایہ،تبیین الحقائق اور فتاوی ہندیہ وغیرہ کتب فقہ میں ہے : ويكره لهم مس كتب الفقه والتفسير والسنن لأنها لا تخلو عن آيات من القرآن، ولا بأس بمسها بالكم بلا خلافترجمہ:اور ان (حائضہ ،نفاس والی ،جنبی ) کےلیے کتب ،فقہ ، (مفصل)تفسیر اور احادیث کی کتابوں کو بلاحائل چھونا،مکروہ ہے،کیونکہ یہ کتب قرآن  پاک کی آیات سے خالی نہیں ہوتی ۔اور آستین وغیرہ کے ساتھ چھونے میں متفقہ طورپر کوئی حرج نہیں ہے ۔(تبیین الحقائق،جلد01،صفحہ58،مطبوعہ بیروت)

   قرآن پاک اورمختصر تفسیر کو چھونے کے متعلق سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ نےفتاوی رضویہ میں ارشاد فرمایا :”مُحْدِث کو مصحف چھونا مطلقاحرام ہے ،خواہ اس میں صرف نظم قرآن عظیم مکتوب ہو یا اُس کے ساتھ ترجمہ وتفسیر ورسم خط وغیرہا بھی کہ ان کے لکھنے سے نام مصحف زائل نہ ہوگا ، آخر اُسے قرآن مجید ہی کہا جائے گا ،ترجمہ یا تفسیر یا اور کوئی نام نہ رکھا جائےگا ۔یہ زوائد قرآن عظیم کے توابع ہیں اور مصحف شریف سے جُدا نہیں ولہٰذاحاشیہ مصحف کی بیاض سادہ کو چھُونا بھی ناجائز ہوا ، بلکہ پٹھوں کو بھی،بلکہ چولی پر سے بھی،بلکہ ترجمہ کا چھونا خود ہی ممنوع ہے ،اگرچہ قرآن مجید سے جُدا لکھا ہو۔  (فتاویٰ رضویہ، جلد1 ،  صفحہ1074،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ نے فرمایا :”ان سب کو فقہ و تفسیر وحدیث کی کتابوں کا چھونا مکروہ ہے اور اگر ان کو کسی کپڑے سے چُھوا اگرچہ اس کو پہنے یا اوڑھے ہوئے ہو ،تو حَرَج نہیں ،مگر مَوضَعِ آیت پر ان کتابوں میں بھی ہاتھ رکھنا حرام ہے۔“(بھار شریعت، جلد1، صفحہ 327، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   حائضہ اور جنبی وغیرہ کے لیے کتب دینیہ میں جہاں آیت قرآنیہ ہو ،اس کےاوپر اور پیچھے ہاتھ لگانا ،ناجائز ہے، چنانچہ اس کے متعلق فتاوی رضویہ  میں ہے :” کتاب یا اخبار جس جگہ آیت لکھی ہے خاص اُس جگہ کو بلاوضوہاتھ لگانا، جائز نہیں ، اُسی طرف ہاتھ لگایا جائے جس طرف آیت لکھی ہے ،خواہ اس کی پشت پر، دونوں ناجائز ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد4،صفحہ366،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم