Kya Makhsoos Ayam Mein Aurat Ghusal Kar Sakti Hai ?

کیا مخصوص ایام میں عورت غسل کر سکتی ہے ؟

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری

فتوی نمبر: Nor-12342

تاریخ اجراء: 12محرم الحرام1444 ھ/11اگست2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے یہاں کےدیہی علاقوں میں خواتین میں یہ بات عام ہے کہ عورت مخصوص ایام میں نہیں نہا سکتی۔اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ”عورت مخصوص ایام میں نہیں نہا سکتی“یہ ایک عوامی غلط فہمی ہے،بلکہ بدبو  یا میل زائل کرنے یا ٹھندک کے لیے نہانے میں کوئی حرج نہیں، اگرچہ جب تک خون بند ہونے کا درست  وقت نہیں پایا جائے گا ،نہا کر پاکی حاصل نہیں ہوگی، لیکن صفائی ستھرائی کے لیے کوئی مضائقہ نہیں۔یہ جو سوال میں درج ہے کہ لوگوں میں مشہور ہے، شریعتِ مطہرہ میں اس بات کی کوئی اصل نہیں، بلکہ اس کے برعکس شریعت میں کچھ خاص مواقع پرعورت کو اگرچہ وہ حیض یانفاس کی حالت میں ہو،غسل کرنے کی ترغیب ہے ،جیساکہ احرام باندھتے وقت غسل کرنا مستحب ہے،لہذااگر حیض یا نفاس والی عورت حج یا عمرہ کا احرام باندھ رہی ہو،تواس کے لیےبھی یہ غسل مستحب ہے،بلکہ اس کی حِلَّت پر فقہائے مجتہدین کا اتفاق ہے ۔ چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پر ذوالحلیفہ پہنچ کرحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ سیدتنا اسماء بنتِ عمیس کےہاں سیدنامحمد بن ابی بکر کی ولادت ہوئی اور نفاس جاری تھا ،توچونکہ اہلِ مدینہ کی میقات ذوالحلیفہ ہے،لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےانہیں خلیفہ اول حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ذریعہ غسل کر کے احرام باندھنے کاحکم ارشادفرمایا۔اگر حیض یانفاس والی عورت کو ان ایام میں غسل کرنا منع ہوتا ،تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا حکم کیسے ارشاد فرماتے؟

   واضح رہے کہ یہ جواب شرعی نقطہ نظر سے ہے، البتہ اگرکسی عورت کے لیےطبی نقطہ نظر سے ان ایام میں غسل کرنا مضرِ صحت ہو، تووہ اپنے مُعالج کی ہدایات پر عمل کرسکتی ہے۔

   نفاس کا خون جاری ہونے کی حالت میں غسل کرنے کی اجازت  ہے،جیساکہ امام مسلم علیہ الرحمۃ ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں،آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:نفست اسماء بنت عميس بمحمد بن ابی بكر بالشجرة فامر رسول اللہ صلى اللہ عليه و سلم ابا بكر يامرها ان تغتسل وتهلّ“یعنی حجۃ الوداع کے موقع پرحضرت اسماء بنتِ عمیس رضی اللہ عنہا کو محمد بن ابی بکرکی ولادت کےسبب نفاس جاری ہوگیا،تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر کو حکم دیا کہ وہ حضرت اسماء کو غسل کر کے احرام باندھنے کا کہیں۔(الجامع الصحیح للامام مسلم،ج1،ص385،مطبوعہ کراچی)

   اس کے تحت علامہ شرف الدین نووی شافعی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:وفيه صحة احرام النفساء والحائض واستحباب اغتسالهما للاحرام وهو مجمع على الامر به لكن مذهبنا ومذهب مالك وابی حنيفة والجمهور انه مستحب وقال الحسن واهل الظاهر:هو واجب“یعنی اس روایت میں حیض ونفاس والی کے احرام صحیح ہونے ، نیزان دونوں کے لیے غسلِ احرام کے مستحب ہونے پردلیل موجودہےاور اس معاملے میں اجماع ہے، مگر ہم شوافع،مالکیہ،احناف اور جمہور فقہاء کا موقف یہ ہے کہ یہ غسل مستحب ہے اور امام حسن بصری علیہ الرحمۃ اور ظاہریہ کا قول وجوب کا ہے۔(المنھاج شرح الصحیح لمسلم بن الحجاج،ج1،ص385،مطبوعہ کراچی)

   امام ابو داؤد وامام ترمذی علیہ الرحمۃ دونوں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاًروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:واللفظ للترمذیان النفساء والحائض تغتسل وتحرم وتقضی المناسك كلها غير انها لا تطوف بالبيت“یعنی نفاس اور حیض والی عورت غسل کر کے احرام باندھےاور سوائے طوافِ بیت اللہ کے باقی تمام مناسک ادا کرے۔(الجامع السنن  للترمذی،ج3،ص281،مطبوعہ داراحیاء التراث العربی، بیروت)

   احرام کے غسل سے متعلق تبیین الحقائق،حاشیہ شرنبلالی اورمنحۃ الخالق میں ہے:واللفظ للاولوالمراد بهذا الغسل تحصيل النظافة وإزالة الرائحة لا الطهارة حتى تؤمر به الحائض والنفساء۔۔۔ ولا يتصور حصول الطهارة لها یعنی احرام کے غسل سے مراد نظافت کا حصول اوربدبو کو دور کرناہے،طہارت مقصود نہیں، یہاں تک کہ حیض ونفاس والی کو بھی اس غسل کا حکم ہے، حالانکہ اس حالت میں ان کا غسل کرکےپاک ہونا،ممکن نہیں۔

   اس کے تحت حاشیہ شلبی  میں ہے:(قوله والمراد بهذا الغسل الخ) قال الاتقانی: وهذا الغسل اعنی غسل الاحرام ليس بواجب ولكنه من باب التنظيف كما فی الجمعة بدلالة اغتسال الحائض والنفساء ملتقطاً یعنی علامہ اتقانی کا فرمانا ہے کہ غسلِ احرام واجب نہیں، بلکہ یہ صفائی ستھرائی کی قبیل سے ہے ،جیساکہ غسلِ جمعہ کا معاملہ ہےاور اس کی دلیل حیض ونفاس والی کے لیے اس غسل کا سنت ہونا ہے ۔(تبیین الحقائق وحاشیۃ الشلبی، ج2،ص08 ،مطبوعہ ملتان )

   امداد الفتاح میں ہے:”وسنن الحج: منھا الاغتسال ولو لحائض ونفساء او الوضوء اذا اراد الاحرام “یعنی حج کی سنتوں میں سے ایک سنت احرام باندھتے وقت وضو یا غسل کرناہے،اگر چہ وہ حیض یانفاس والی عورت ہو۔(امداد الفتاح شرح نور الایضاح،ص688 ،مطبوعہ کوئٹہ)

   بحر الرائق میں ہے:”(قوله واذا اردت ان تحرم فتوضا والغسل افضل) قد تقدم دليله في الغسل وهو للنظافة لا للطهارة فيستحب في حق الحائض أو النفساء والصبي“یعنی جب تمہارا احرام باندھنے کا وقت ہو، تو وضو کرو اور غسل افضل ہے اور غسل کی دلیل پیچھے گزر چکی ہے اور یہ غسل نظافت کے لیے ہے،طہارت کے لیے نہیں، لہذا حیض ونفاس والی عورت اور بچے کے حق میں یہ غسل مستحب ہے(پھر دلیل میں اوپرمسلم شریف کی ذکرکردہ روایت بیان کی ہے)۔(البحرالرائق،ج2،ص344،مطبوعہ المکتب الاسلامی)

   صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:”جب وہ جگہ(یعنی میقات)قریب آئے،مسواک کریں اور وضو کریں اور خوب مَل کرنہائیں،نہ نہا سکیں تو صرف وضو کریں ،یہاں تک کہ حیض ونفاس والی اور بچے بھی نہائیں اوربا طہارت  احرام باندھیں۔“(بھار شریعت،ج1،حصہ6،ص1071، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم