Kya Hamla Aurat Ko Haiz Ki Aadat Wale Dino Ki Namazain Maaf Hoti Hain ?

کیا  حاملہ عورت کو حیض کی عادت والے دنوں کی  نمازیں معاف ہوتی ہیں ؟

مجیب:مولانا اعظم عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2837

تاریخ اجراء: 26ذوالحجۃالحرام1445 ھ/03جولائی2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عورت جب حاملہ ہو تو اب اس صورت میں حیض کا خون بند ہو جاتا ہے تو پوچھنا یہ تھا کہ عورت کو جن ایام میں حیض آتا ہے ان  کا اعتبار کرتے ہوئے دوران ِ حمل ہر ماہ ان ایام میں نمازیں چھوڑے گی یا اب خون بند ہونے کی وجہ سے پورا ماہ نمازیں پڑھنی ہوں گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں دوران حمل عورت کو نمازیں معاف نہیں بلکہ اس  پر نماز پڑھنا فرض ہے، کیونکہ حاملہ عورت کو دورانِ حمل  حیض نہیں آتا اور نمازیں صرف حالت حیض ونفاس میں معاف ہیں اور اگر بالفرض کسی کو دوران حمل خون آئے تو آنے والا خون  حیض نہیں بلکہ استحاضہ کے حکم میں ہوتا ہے اور حالت ِاستحاضہ  میں نہ نمازیں معاف ہوتی ہیں اور نہ ہی روزہ۔

      درمختار میں ہے:”وما تراہ حامل استحاضۃ“ترجمہ:حاملہ عورت کو آنے والا خون استحاضہ کہلاتا ہے۔ (در مختار،کتاب الطھارۃ،جلد1،صفحہ 524،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہار شریعت میں ہے:” حمل والی کو جو خون آیا اِستحاضہ ہے۔"(بہار شریعت،جلد1،حصہ 2،صفحہ 373،مکتبۃ المدینہ)

   مستحاضہ عورت سے نماز معاف نہ ہونے کے حوالے سےبخاری شریف میں ہےکہ حضرت فاطمہ بنتِ ابوحبیش رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا استحاضہ کی حالت میں مَیں نماز چھوڑ دوں؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:   ”قال لا، إنما ذلك عرق، وليس بالحيض“ترجمہ : تم نماز نہ چھوڑو، کہ  یہ حیض کا نہیں بلکہ رگ (آنت)سے بہنے والا خون ہے ۔(صحیح بخاری،کتاب الوضو،حدیث 228،جلد01صفحہ 55، الناشر: دار طوق النجاة)

   اس حدیث پاک کے تحت علامہ بدر الدین عینی حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”فيه نهي للمستحاضة عن الصلاة في زمن الحيض ولا يجوز لها بعد ذلك أن تترك صلاة أو صوما، ويكون حكمها حكم الطاهرات“ترجمہ:اس حدیث پاک میں مستحاضہ کو حالتِ حیض میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا،اور جب حیض کا خون ختم ہوجائے تو مستحاضہ کو نماز وروزہ چھوڑنا جائز نہیں،کیونکہ مستحاضہ عورت کا حکم طاہرات (پاک عورتوں) جیسا ہے۔ (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، جلد3، صفحہ 143، الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

      در مختار میں ہے:” ودم استحاضة۔۔۔لا يمنع صوما وصلاة“ترجمہ:استحاضہ کا خون نماز و روزے سے مانع نہیں۔(در مختار،کتاب الطہارۃ،جلد1،صفحہ 544،مطبوعہ کوئٹہ)

    بہار شریعت میں ہے:” اِستحاضہ میں نہ نماز معاف ہے نہ روزہ ،نہ ایسی عورت سے صحبت حرام۔(بہار شریعت، جلد1، حصہ 2،صفحہ 385،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم