Kya DNC Ke Baad Nifas Ke 40 Din Pore Karne Zaroori Hain ?

کیا DNC کے بعد نفاس کے 40 دن پورے کرنے ضروری ہیں ؟

مجیب: مولانا محمد شفیق عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2426

تاریخ اجراء: 20رجب ا لمرجب1445 ھ/01فروری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   جس کی DNC ہوتی ہے ، کیا اسے بھی نفاس کے 40 دن پورے کرنے ہوتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ڈی این سی ایک سرجیکل طریقہ کار ہے، جو مس کیرج (اسقاطِ حمل) کے بعد رحم سے باقی ماندہ ٹشو کو ہٹانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اسقاطِ حمل (یعنی حمل ضائع ہونے یا ضائع کروانے) کے بعد آنے والے خون کے متعلق حکم شرعی تفصیل یہ ہے کہ :

   اگر حمل چار مہینے یعنی 120دن مکمل ہونے سے پہلے ہی ضائع ہو گیا ہو ، تو اس صورت میں اگر یہ معلوم ہو کہ حمل کا کوئی عضو جیسے انگلی یا ناخن یا بال وغیرہ بن چکا تھا ، اس کے بعد حمل ضائع ہوا ہے ، تو آنے والا خون نفاس ہو گا ، عورت نفاس کے احکام پر عمل کرے گی ، کیونکہ اعضا چار ماہ سے پہلے بننا شروع ہو جاتے ہیں ، جبکہ روح چار ماہ مکمل ہونے پر پھونکی جاتی ہے اور عضو بن جانے کے بعد حمل ضائع ہو جانے کی صورت میں آنے والا خون نفاس کا ہوتا ہے ۔

   اور حمل چار مہینے یعنی 120دن سے پہلے ضائع ہو جانے کی صورت میں اگر یہ معلوم نہ ہو کہ اس کا کوئی عضو بنا تھا یا نہیں ،یا یہ معلوم ہو کہ کوئی بھی عضو نہیں بنا تھا ، تو آنے والا خون نفاس نہیں ہو گا ۔ اس صورت میں خون اگر کم از کم تین دن رات یعنی 72 گھنٹے تک جاری رہا اور اس خون کے آنے سے پہلے عورت پندرہ دن پاک رہ چکی تھی ، تو یہ خون حیض کا ہو گا ، اس صورت میں عورت حیض کے احکام پر عمل کرے گی ۔

   اور اگر تین دن رات سے پہلے ہی خون بند ہو گیا یا بند تو نہ ہوا لیکن اس خون کے آنے سے پہلے عورت پندرہ دن پاک نہیں رہی تھی ، تو یہ خون استحاضہ یعنی بیماری کا ہو گا ، اس صورت میں عورت استحاضہ کے احکام پر عمل کرے گی ۔

   خاتم المحققین علامہ محمد امین ابنِ عابدین  شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (متوفی 1252ھ)فرماتے ہیں:” والسقط۔۔۔ان استبان بعض خلقه ۔۔۔كالشعر والظفر واليد والرجل والاصبع ( فولد ) اى فهو ولد تصير به نفساء وتثبت لها بقية الاحكام من انقضاء العدة ونحوها۔۔۔والا يستبن شي من خلقه فلا يكون ولدا ولا تثبت به هذه الاحكام ولكن مارأته من الدم بعدا سقاطه (حيض ان بلغ نصابا )ثلاثة ايام فاكثر ( وتقدمه طهر تام۔۔۔ والا ) لايوجـدواحد من هذين الشرطین او فقد احداھما فقط (فاستحاضۃ) “  ترجمہ: حمل  ساقط ہونے کی صورت میں اس  کے بعض اعضاء مثلاً بال،ناخن،ہاتھ،پاؤں اور انگلیاں اگر بن چکے تھے تو اس کا حکم مکمل بچے کا سا ہوگا یعنی عورت اس کی وجہ سے نفاس والی کہلائے گی اور اس کے لئے بقیہ احکام مثلاً عدت کا مکمل ہونا وغیرہ بھی ثابت ہوں گے اور اگر حمل کے ساقط ہونے سے پہلے اس کا کوئی بھی عضو نہیں بنا تھا تو اس کا حکم مکمل بچے  کاسا نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کی وجہ سے  یہ احکام (مثل قضائے عدت )ثابت ہوں گے ،لیکن اس صورت میں حمل ساقط ہونے کےبعد اگر عورت خون دیکھے تو وہ حیض شمار ہوگا بشرطیکہ یہ خون مسلسل تین دن  یا زیادہ جاری رہے اور اس سے پہلے مکمل ایک طہر گزر چکا ہو اور اگر یہ دونوں شرطیں یا فقط ایک ہی نہ پائی گئی تو اس صورت میں وہ خون استحاضہ کہلائے گا۔(منھل الواردین من بحار الفیض علی ذخر المتاھلین فی مسائل الحیض،ص21،مطبع معارف)

      بہار شریعت میں ہے” حمل ساقط ہو گیا اور اس کا کوئی عُضْوْ بن چکا ہے جیسے ہاتھ، پاؤں یا انگلیاں تو یہ خون نِفاس ہے، ورنہ اگر تین دن رات تک رہا اور اس سے پہلے پندرہ دن پاک رہنے کا زمانہ گزر چکا ہے تو حَیض ہے اور جو تین دن سے پہلے ہی بند ہو گیا یا ابھی پورے پندرہ دن طہارت کے نہیں گزرے ہیں تو اِستحاضہ ہے۔(بہار شریعت،ج 1،حصہ 2،ص 377،378،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

      بچے کے اعضاء بننے کی مدت کے حوالے سے خاتم المحققین علامہ محمد امین ابنِ عابدین  شامی رحمۃ اللہ تعالی علیہ (متوفی 1252ھ)فرماتے ہیں:” وقدروا تلك المدة بمائة وعشرين يوما“ترجمہ: بچے کے اعضاء بننے کی مدت علماء نے ایک سو بیس دن مقرر فرمائی۔ (رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الطھارۃ،باب الحیض،ج 1،ص 302،دار الفکر،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم