Kya Auratain Nabi Kareem ﷺ ke Moye Mubarak ki Ziyarat Kar Sakti Hain?

کیا عورتیں نبی کریم ﷺ کے موئے مبارک کی زیارت کر سکتی ہیں؟

مجیب:مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-9079

تاریخ اجراء:27صفر المظفر1446ھ/2ستمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ ہمارے گاؤں میں ایک گھر کے اندر سرکار صلی اللہ علیہ و سلم کے موئے مبارک موجود ہیں۔ وہ ہر ماہ پیر شریف کو اُن کی عام زیارت کرواتے ہیں۔ مَرد وخواتین کے جداگانہ اوقات مقرر ہیں۔ عورتوں کے وقت میں عورتیں ہی زیارت کرتی ہیں،نیز اُنہیں بالترتیب گزارنے کے لیے بھی عورتیں ہی مقرر ہوتی ہیں۔ مگر ہمارے گاؤں کے ایک بڑی عمر کے بزرگ عورتوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے موئے مبارک کی زیارت کروانے سے منع کرتے ہیں۔  اُن کا کہنا ہے کہ صرف مرد ہی سرکار صلی اللہ علیہ و سلم کے موئے مبارک کی زیارت کر سکتے ہیں، عورتوں کو زیارت کروانا درست نہیں۔ ہماری شرعی رہنمائی فرمائیں کہ کیا اُن کی کہی ہوئی بات درست ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے موئے مبارک کے آداب کا خیال رکھتے ہوئے عورتوں کا بھی اُن کی زیارت کرنا، جائز اور باعثِ برکت ورحمت ہے۔صحابیات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُناپنے پاس موئے مبارک کو رکھتیں اور اُنہیں اپنی جان سے بڑھ کر عزیز اور  دنیا وآخرت کا بہترین سرمایہ جانتی تھیں۔حضرت ام سلیم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا  تو  باقاعدہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بسترمبارک سے آپ کے زمین پر تشریف لائے موئے مبارک جمع کرتیں اور شیشی میں سنبھال کر رکھا کرتی تھیں۔صحابیات کی اِن خوبصورت عادات سے معلوم ہوا کہ خواتین بھی  اپنے پاس موئے مبارک  رکھ سکتیں اور اُن کی زیارت کر سکتی ہیں۔ اِس میں شرعاً کسی طرح کا حرج اور مضائقہ نہیں ہے۔لہذا پوچھی گئی صورت میں عورتوں کا زیارت کرنا درست اور باعث برکت ہے۔جو اِس سے منع کرتے ہیں، اُن کا روکنا شرعی نقطہ نظر سے درست نہیں اور اگر وہ اِسے ناجائز کہتے ہیں تو اُنہیں اِس سے توبہ کرنی چاہیے۔اپنی نادانی اور جہالت کے سبب یوں دینی مسئلہ بتانا گناہ ہے،  ایسے شخص پر توبہ بھی واجب ہے اور جس کو غلط مسئلہ بتایا ہے،  حتی الامکان انہیں درست بات پہنچانا اور غلطی کا ازالہ کرنا بھی ضروری ہے۔

   حضرت ام سلمہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا  کے پاس نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے موئے مبارک موجود تھے، چنانچہ ابو عبداللہ  امام محمد بن اسماعیل بخاری  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:256ھ/870ء) روایت کرتے  ہیں:”عن عثمان بن عبد اللہ بن موهب قال: «دخلت على أم سلمة فأخرجت إلينا شعرا من شعر النبي صلى اللہ عليه وسلم مخضوبا “ترجمہ:حضرت عثمان بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے، وہ بتاتے ہیں:میں حضرت ام سلمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا  کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے ہمیں نبی اکرم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے چند بال مبارک نکال کر دکھائے،  جو مہندی سے رَنگے ہوئے تھے۔(صحیح البخاری، جلد07،  ‌‌باب ما یذکر فی الشیب، صفحہ 160، مطبوعہ دار طوق النجاۃ، بیروت)

    صحیح البخاریمیں ہی ہے:”عن أنس : أن أم سليم كانت تبسط للنبي صلى اللہ عليه وسلم نطعا فيقيل عندها على ذلك النطع، قال: فإذا نام النبي صلى اللہ عليه وسلم أخذت من عرقه وشعره فجمعته في قارورة، ثم جمعته في سك، قال: فلما حضر أنس بن مالك الوفاة أوصى أن يجعل في حنوطه من ذلك السك، قال: فجعل في حنوطه“ ترجمہ:حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ سیدتنا  ام سلیم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے لیے چمڑے کا بستر بچھاتیں اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  اُن کے ہاں اُسی پر قیلولہ فرمایا کرتے تھے۔ جب آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی آنکھیں سو جاتیں، تو حضرت ام سلیم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا  آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا پسینہ اور نیچے تشریف لائے ہوئے بال مبارک جمع کرتیں اور انہیں ایک شیشی میں ڈال لیتیں اور پھر انہیں کسی خوشبو میں ملا لیتیں۔ جب  حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی وفات کا وقت قریب آیا،  تو انہوں نے وصیت کی کہ اس خوشبو میں سے  کچھ حنوط میں ملا دیا جائے، چنانچہ اسے حنوط میں ملا دیا گیا۔(صحیح البخاری، جلد08،  صفحہ 63، مطبوعہ دار طوق النجاۃ، بیروت)

   فتاوٰی بریلی شریف  میں ہے:”تبرکاتِ شریفہ کی زیارت مردو عورت سب ہی کو کرنا کرانا ، جائز وباعثِ برکت ہے اور عورتوں کو زیارت سے منع کرنا ناجائز کہنا غلط ہے۔“ (فتاویٰ بریلی شریف، صفحہ 96، مطبوعۃ زاویہ پبلشرز، لاھور)

   غلط مسئلہ بیان کرنے والے کے   متعلق امامِ اہلِ سنَّت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1340 ھ /1921ء)  لکھتے ہیں:”جھوٹا(یعنی غلط)مسئلہ بیان کرنا، سخت شدید کبیرہ ہے ، اگر قصداً ہے تو شریعت  پر افتراء ہے اور شریعت پر افتراء اللہ عزوجل پر افتراء ہے۔۔۔اور اگر بے علمی سے ہے تو جاہل پر سخت حرام ہے کہ وہ فتوی دے۔“(فتاوٰی رضویہ، جلد23،صفحہ711،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم