Kya Aurat Ka Apne Susar Ke Bhaiyon Se Bhi Parda Hai ?

کیا عورت کا اپنے سسر کے بھائیوں سے بھی پردہ ہے؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12418

تاریخ اجراء:        22صفر المظفر1444 ھ/19ستمبر2022   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا عورت کا اپنے سسر کے بھائیوں سے بھی پردہ ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر ممانعت کی کوئی دوسری وجہ مثلِ رضاعت وغیرہ نہ ہو تو عورت اپنے سسر کے بھائیوں سے بھی پردہ کرے گی کہ یہ شوہر کے اصول میں داخل نہیں، اس لیے یہ عورت کے لیے  محرم نہیں بنتے اور عورت کا نامحرموں سے پردہ کرنا واجب ہے، بلکہ فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق عورت کو اجنبی نامحرم کے مقابلے میں نامحرم  رشتہ دار سے پردہ کرنے کی اور بھی زیادہ تاکید ہے۔

   شوہر کے آباء  و اجداد عورت کے لیے محرم بنتے ہیں خواہ شوہر نے دخول کیا ہو یا دخول نہ کیا ہو۔ جیسا کہ النتف فی الفتاوٰی میں مذکور ہے:وأما الصهر فهم أربعة اصناف أحدهم ابو الزوج والجدود من قبل ابويه وان علوا يحرمون على المرأة وتحرم هي عليهم دخل بها أو لم يدخل بها “یعنی بہر حال سسرالی رشتے سے چار اقسام حرام ہیں، ان میں سے پہلی قسم  شوہر کا باپ اور باپ کی طرف سے شوہر کے آباء و اجداد ہیں اگر چہ اوپر تک ہوں کہ یہ سب عورت پر حرام ہوتے ہیں اور عورت ان پر حرام ہے خواہ شوہر نے اس عورت سے دخول کیا ہو یا دخول نہ کیا ہو۔ “   (النتف فی الفتاوٰی، ج 01، ص 254، دار الفرقان، بیروت لبنان)

   فتاوٰی شامی میں ہے:”قال فی البحر:أراد بالحرمۃ المصاھرہ الحرمات الأربع حرمۃ المرا ۃ علی أصول الزانی و فروعہ نسباً ورضاعاً،وحرمۃ أصولھا وفروعھا علی الزانی نسباً ورضاعاً کما فی الوطء الحلالیعنی صاحب بحر الرائق نے فرمایا کہ یہاں حرمتِ مصاہرت سے چار طرح کی حرمت مراد ہے، زانی کے اصول و فروع چاہے نسب کی وجہ سے ہوں یا رضاعت کی وجہ سے ، ان پر زانیہ حرام ہے اور زانیہ کے اصول و فروع چاہے وہ نسب سے ہوں یا رضاعت کی وجہ سے ،یہ سب زانی پر حرام ہیں جیسا  کہ حلا ل وطی کی وجہ سے ہوتاہے۔‘‘(ردالمحتار مع الدر المختار ، کتاب النکاح، ج04،ص113، مطبوعہ کوئٹہ)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے ایسے شخص کے بارے میں سوال ہواجواپنے سُسرکے انتقال کے بعداپنی سوتیلی ساس سے نکاح کرناچاہتاتھاتواس کے جواب میں آپ علیہ الرحمہ نے ارشادفرمایا:’’نکاح مذکورجائزہے قال اللہ عزوجل:واحل لکم ماورآءذلکم۔علماءقاطبہ متون وشروح وفتاوی میں محرماتِ صہریہ زوجات ِاصول وفروع، اصولِ وفروعِ زوجات بتاتے ہیں نہ زوجہ ِاصولِ زوجہ۔۔۔اورسوتیلی ماں لفظ امھات میں ہرگزداخل نہیں۔۔۔اصل یہ ہے کہ ساس کی حرمت اس وجہ سے نہیں کہ وہ خسرکی زوجہ ہے بلکہ اس لیے کہ وہ زوجہ کی ماں ہے ، سوتیلی ساس میں یہ وجہ نہیں لہذااس کی حلت میں کوئی شبہہ نہیں ۔مسئلہ واضح ہے اورحکم ظاہر۔“(فتاوٰی رضویہ ،ج11،ص312، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

عورت کا نامحرموں سے پردہ کرنا واجب ہے۔ جیسا کہ فتاویٰ رضویہ میں ہے:”جو محرم نہیں وہ اجنبی ہے اس سے پردہ کا ویسا ہی حکم ہے جیسے اجنبی سے خواہ فی الحال اس سے نکاح ہوسکتا ہو یا نہیں۔“(فتاوی رضویہ، ج11، ص415، رضا فاؤنڈیشن ، لاہور)

   ایک دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت  علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے  ہیں:ضابطہ کلیہ ہے کہ نامحرموں سے پردہ مطلقا واجب؛ اور محارم نسبی سے پردہ نہ کرنا واجب، اگر کریگی گنہگار ہوگی؛ اور محارم غیر نسبی مثل علاقہ مصاہرت ورضاعت ان سے پردہ کرنا اورنہ کرنادونوں جائز۔ مصلحت وحالت پرلحاظ ہوگا۔“(فتاوی رضویہ، ج 22، ص 240، رضافاؤنڈیشن، لاہور )

   اجنبی کے مقابلے میں نامحرم رشتہ داروں سے پردے کی تاکید بیان کرتے ہوئے  سیدی اعلیٰ حضرت  علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے  ہیں:”جیٹھ، دیور، پھپا، خالو، چچازاد، ماموں زاد پھپی زاد ، خالہ زاد بھائی سب لوگ عورت کے لئے محض اجنبی ہیں، بلکہ ان کاضرر نرے بیگانے شخص کے ضرر سے زائد ہے کہ محض غیر آدمی گھر میں آتے ہوئے ڈرے گا، اور یہ آپس کے میل جول کے باعث خوف نہیں رکھتے۔ عورت نرے اجنبی شخص سے دفعۃ میل نہیں کھا سکتی، اور ان سے لحاظ ٹوٹا ہوتاہے۔ لہذا جب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے غیر عورتوں کے پاس جانے کو منع فرمایا، ایک صحابی انصاری نے عرض کی: یا رسول اللہ ! جیٹھ دیور کے لئے کیا حکم ہے؟ فرمایا: الحموا الموت، رواہ احمد والبخاری عن عقبۃ بن عامر رضی اﷲ تعالی عنہ جیٹھ دیور تو موت ہیں۔“(فتاوی رضویہ ، ج 22، ص 217، رضافاؤنڈیشن، لاہور )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم