Jumma Ki Pehli Azan Ke Baad Khawateen Ka Beauty Salon Chalana Kaisa?

 

جمعہ کی پہلی اذان کے بعد خواتین کا بیوٹی سیلون (Beauty Salon) چلانا کیسا؟

مجیب:ابوتراب محمد علی عطاری

مصدق:  مفتی محمد قاسم عطاری   

فتوی نمبر: Pin-7446

تاریخ اجراء: 13ذو القعدۃ الحرام1445ھ/22مئی 2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ جمعہ والے دن جمعہ کی اذانِ اول کے بعد خواتین کا بیوٹی سیلون(Beauty salon) کھلا رکھ کر سروس فراہم کرنا اور کام کرتے رہنا جائز ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   خواتین کا جمعہ کے دن اذانِ اول کے بعد بیوٹی سیلون کُھلا رکھ کر جائز سروس فراہم کرنا، جائز ہے،کیونکہ عورتوں پر جمعہ فرض نہیں، تو جمعہ کی سعی (تیاری) بھی ان پر لازم نہیں۔

   جمعہ کی اہمیت کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’ان یوم الجمعۃ سید الایام واعظمھا عند اللہ وھو اعظم عند اللہ من یوم الاضحی ویوم الفطر‘‘ ترجمہ:  جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار ہے اور اللہ عزوجل کے نزدیک سب سے بڑا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عید الاضحی اور عید الفطر سے بڑا ہے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ، صفحہ 76، مطبوعہ لاھور)

   البتہ عورتوں  پر جمعہ کی نماز فرض نہیں، حدیث پاک میں ہے:’’اربعة لا جمعة عليهم: المراة والمملوك والمسافر والمريض‘‘ ترجمہ:چار افراد پر جمعہ فرض نہیں: عورت، غلام، مسافر اور مریض۔(الآثار لمحمد بن الحسن، جلد 1، صفحہ 526، مطبوعہ بیروت)

   جن پر جمعہ فرض نہیں، ان پر جمعہ کی سعی بھی لازم نہیں۔ چنانچہ در مختار میں ہے: ’’(وكره البيع عند الاذان الاول) ۔۔ وقد خص منه من لا جمعة عليه ‘‘ ترجمہ: اذانِ اول کے وقت خرید و فروخت مکروہ ہے، ۔۔۔اس حکم سے (مستثنیٰ ہونے میں) خاص کیا گیا ہے، ان کو جن پر جمعہ فرض نہیں ہے۔(در مختار، کتاب البیوع، جلد 7، صفحہ 309، مطبوعہ  پشاور)

      بہار شریعت میں ہے: ’’اذانِ جمعہ کے شروع سے ختمِ نماز تک بیع مکروہ تحریمی ہے اور اذان سے مراد پہلی اذان ہے کہ اُسی وقت سعی واجب ہوجاتی ہے، مگر وہ لوگ جن پرجمعہ واجب نہیں ،مثلاً: عورتیں یا مریض اُن کی بیع میں کراہت نہیں۔‘‘(بھار شریعت، حصہ 11، صفحہ 723، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   اجارہ (سروس فراہم کرنا) بھی بیع کی طرح ہے۔ عقود الدریہ میں ہے: ’’البيع والاجارة اخوان، لان الاجارة بيع المنافع‘‘ یعنی بیع اور اجارہ دونوں بھائی ہیں، کیونکہ اجارہ میں منافع کی بیع ہوتی ہے۔(عقود الدریہ، کتاب الاجارہ، جلد 2، صفحہ 242، مطبوعہ بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم